ماہنامہ انوار مدینہ لاہورجولائی 2002 |
اكستان |
|
پھر اس دلیل کا دوسرا مقدمہ بھی درست نہیں کہ تجارتی سود عہد جاہلیت میںرائج نہ تھا ،یہ کہنا دراصل تاریخ اور ناواقفیت پر مبنی ہے، جاہلیت عرب اور پھر اسلامی دور کی تاریخ پر سرسری نظر ڈالنے کے بعد یہ بات بالکل آشکارا ہوجاتی ہے کہ اس زمانے میں سودکالین دین صرف احتیاجی اور صرفی قرضوں پرنہیںتھا بلکہ تجارتی اغراض اور نفع بخش مقاصد کے لیے بھی قرض لیے اور دئیے جاتے تھے چنانچہ ذیل میں اس قسم کی چند مثالیں ذکر کی جاتی ہیں : کانت بنو عمرو بن عامر یا خذون الربا من بنی المغیرة ،وکانت بنو المغیرة یربون لھم فی الجاہلیة ،فجا ء الاسلام ولھم علیھم مال کثیر ۔ جاہلیت کے زمانے میں بنو عمرو بن عامر ، بنو مغیرہ سے سود لیتے تھے اور بنو مغیرہ انہیں سود دیتے تھے ،چنانچہ جب اسلام آیا تو ان پر ایک بھاری مال واجب تھا۔ اس روایت میں عرب کے دوقبیلوں کے درمیان سودی لین دین کا ذکر کیا گیا ہے ،یہ بات ذہن میں رکھیے کہ ان قبیلوں کی حیثیت تجارتی کمپنیوں جیسی تھی ،ایک قبیلے کے افراد اپنا مال ایک جگہ جمع کرکے اجتماعی انداز میں اس سے تجارت کیا کرتے تھے ،پھر یہ قبیلے اچھے خاصے مالدار بھی تھے اب آپ خود ہی فیصلہ کر لیجئے کہ کیا دومال دار قبیلوں کے درمیان سود کا مسلسل کاروبار کسی ہنگامی ضرور ت کے لیے ہو سکتا ہے ؟یقینا یہ لین دین تجارتی بنیادوں پرتھا۔ اس کے علاوہ ہم طائف کی تاریخ پر نگاہ ڈالتے ہیں جو قبیلہ ثقیف کا مسکن تھا ،طائف مکے سے پچھتر میل کے فاصلے پرجنوب مشرق میں واقع ہے اس کی زمین نہایت زرخیزاور سرسبز وشاداب تھی ۔اس کے ارد گرد وادیوں سے باہر بھیجی جانے والی تجارتی اشیاء کافی مقدار میں حاصل ہوتی تھیں جنہیں حجاز جیسے بے آب و گیا علاقہ میں کہیں بھی فروخت کیا جاسکتا تھا ۔طائف سے برآمد کی جانے والی چیزوں میں کشمش ،منقیٰ ،شراب ،گیہوںاور لکڑی ہوتی تھی ،طائف کی مخصوص صفحہ نمبر 86 کی عبارت صنعت چمڑے کی تیاری او ررنگائی تھی ۔ مغربی عرب میں طائف مکے کے بعد دوسرے درجہ کا شہر سمجھا جاتا تھا ،قرآن مجید نے طائف کا ذکر مکہ کے ساتھ ''القریتین '' کے فقرے سے کیا ہے ،جس سے اس بات کا اشارہ بھی ملتا ہے کہ ان دونوں شہروں کے روابط ایک مخصوص اہمیت کے حامل تھے۔ آبادی کا ایک حصہ کثیر تعداد پر مشتمل یہودیوں کا بھی تھا جو یمن اور یثرب سے نکال دئیے جانے کے بعد طائف میں اپنے کاروبار کے سلسلے میں مستقل مقیم ہو گئے تھے۔ طائف کے باشندوں کا جو زیادہ تر ثقیف کے قبیلے سے تھے سب سے بڑا کاروبار ربا (سودی لین دین )تھا اور سودی لین دین کے اس طرح معاشی زندگی کی گہرائیوں میںپیوست ہوجانے کی وجہ سے حضور اکرم ۖ نے طائف سے صلح کرتے وقت ایک شرط صراحة ًیہ رکھی تھی کہ سودی لین دین بالکلیہ موقوف کردیا جائے گا، ساتھ ہی ساتھ جو سود دوسروں کا ان پر یا ان کا دوسروں پر چڑھ چکا ہے اسے بالکل ترک کر دیا جائے گا۔ طائف کاسودی کاروبار کرنے والے صرف اپنے شہر کے لوگوں سے ہی سود کالین دین نہ رکھتے تھے بلکہ مکے