ماہنامہ انوار مدینہ لاہورجولائی 2002 |
اكستان |
|
آج انبیاء کرام کے ماننے والے ہمیشہ محنت اور مزدوری کو ذلیل چیز شمار کرتے ہیں مگر ہمارے بنی کریم حضر ت محمد ۖکی سیرت میں یہ واقعہ بھی ملتا ہے کہ وہ مزدوری کرنے والوں کے ہاتھ کے گٹھے کو خوش ہو کر بوسہ دیتے ہیں ،اتنا ضرور ہے کہ اسلام نے محنت کو بے لگام نہیں چھوڑدیا وہ پسینہ ،محنت اور مزدوری میں آزادی کا قائل ہے مگر اس کے ساتھ ایسی محنتوں پروہ پابندی بھی لگا تاہے جو معاشی یااخلاقی حیثیت سے معاشرہ کے لیے مضر ہوں ۔ دیکھا جائے تو اسلام انسان کو پائیدار اور مستقل اخلاقی قدریں دیتا ہے اور ان قدروں کی پامالی وہ کسی حالت میں پسند نہیں کرتا چونکہ وہ معاش کو بھی ان قدروں کا پابند بنانا چاہتا ہے اس لیے وہ نہ تو مغرب کی بے قید معیشت اور محنت کی اس بے قیدتعریف کو تسلیم کرتا ہے کہ جس کام سے آدمی کومادی یا غیر مادی معاوضہ حاصل ہو وہ محنت بار آورہے ۔ اور نہ اشتراکیت کی بے اخلاقی جبری محنت کو پسند کرتا ہے بلکہ اسلام صرف اس محنت کو بار آور محنت کہتاہے جو اجرت و منفعت کے اعتبار سے آزاد ہو مگر اس کی آزادی اخلاقی حدود کے اندر ہو ۔ صفحہ نمبر 77 کی عبارت قرآن پاک میں مزدوروں کی حیثیت ،ان کی محنت کی حد اور اجرت کا تعین اور ان کے ساتھ مالک کا طرز عمل کیا ہونا چاہئے اس کا ذکر کئی جگہ آیا ہے، خصوصیت سے سورة البقر اور قصص میں اجرت کی تعین کے بیان میں اس کی تفصیل موجود ہے (اسلامی قانون محنت :مجیب اللہ ندوی ، ص ١٣٦) محنت کی عظمت پرآنحضرت ۖ کے ارشادات : محنت کی عزت افزائی کے سلسلہ میں آنحضر ت ۖ کے ارشادات یہاں پیش خدمت ہیں۔ اس سے بہتر کوئی کھانا نہیں ہے جو آدمی اپنے ہاتھوں سے کما کر کھاتا ہے ۔( مشکٰوة ص٢٤) حضرت دائود علیہ السلام اپنے ہاتھوں سے اپنی روزی کماتے تھے اسی طرح حضرت موسٰی علیہ الصلٰوة والسلام کی مزدوری کا قرآن پاک میں جو ذکر ہے اس کا ذکر کرکے آنحضرت ۖ نے فرمایا : انہوں نے آٹھ یادس برس تک اس طرح مزدوری کہ کہ اس پوری مدت میں وہ پاک دامن بھی رہے اور اپنی مزدوری کو بھی پاک رکھا ۔(مشکٰوة ص ٢٥٢) یہ حدیث قرآن مجید کے دو لفظ القوی الامین کی گویا تفسیر ہے ا س سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ مزدور میں اخلاقی اوصاف کیا ہونے چاہئیںاس کی تفصیل آگے آئے گی۔ آپ نے ان چند انبیاء کرام ہی کااُسوہ پیش نہیں کیا بلکہ ایک حدیث میں فرمایا : خدا نے جتنے انبیا ء بھیجے ہیں ان سب نے بکریاں چرائی ہیں ۔ صحابہ نے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ آپ نے بھی بکریاں چرائی ہیں۔ فرمایا ہاں میں بھی چند قیرا طوں کے عوض اہل مکہ کی بکریاں چرایا کرتا تھا ۔(مشکٰوة ص ٢٥٨ باب الاجارہ