ماہنامہ انوار مدینہ لاہورجولائی 2002 |
اكستان |
|
تجارتی سود کو جائز قرار دینے والے حضرات فقہی زاویۂ نگاہ سے جو دلائل پیش کرتے ہیں ان کے دو گروہ ہو گئے ہیں : پہلا گروہ : بعض تو وہ ہیں جو اپنے استدلال کی بنیاد اس بات پررکھتے ہیں کہ تجارتی سود عہدِرسالت میں رائج تھا یا نہیں ؟ ان کا کہنا ہے کہ قرآن کریم میںحرام سود کے لیے ''الربا'' کا لفظ استعمال کیا گیا ہے ،جس سے مراد سود کی وہ مخصوص شکل ہے جو آنحضرت ۖ کے زمانہ میں یا آپ ۖ سے پہلے عہد جاہلیت میں رائج تھی ،ظاہر ہے کہ قرآن کریم کے بلاواسطہ مخاطب اہل عرب ہیں ، ان کے سامنے جب ''الربا ''کا ذکرکیا جائے گا تو مراد وہی ربوٰ ہو گا جو ان کی نگاہ میں جانا پہچانا اور معروف ہو ،جب ہم اس زمانے میں سود کی مروجہ صورتوں میں جستجو کرتے ہیں تو ہمیں کہیں تجارتی سود کی شکل نہیں دکھائی دیتی۔ تجارتی سود اہل یورپ کی ایجاد ہے اور صنعتی انقلاب کے بعد جب صنعت و تجارت کو فروغ نصیب ہوا ہے اس وقت تجارتی سود (Commercial Intrest) کا لین دین شروع ہوا ہے ،لہذا جن آیا ت سے سود کی حرمت معلوم ہوتی ہے ان سے تجارتی سود کے حرام ہونے پر استدلال صحیح نہیں ۔ ہم پہلے اسی گروہ کے اس استدلال کاجائزہ لیتے ہیں : ہماری نگاہ میں ان حضرات کا یہ استد لا ل بہت سطحی ہے ،اس لیے کہ ان حضرات نے اپنی اس دلیل کی اس عمارت کو دوہی ستونوں پر کھڑا کیا ہے ،ایک تو یہ کہ ''الربا'' سے مراد ''ربا'' کی وہی شکل و صورت ہے جو زمانہ ٔ رسالت میں رائج تھی ، اوردوسرے یہ کہ تجارتی سود اس زمانے میں رائج نہ تھا لیکن اگردلائل کا گہری نظر سے مطالعہ کیاجائے تو معلوم ہوجائے گا کہ یہ بالکل بے وزن ہیں ۔ اول تو یہ بات ہی بے وزن ہے کہ ''الربا''کی جو شکل عہد جاہلیت میں رائج نہ ہو وہ حرام نہیںہے اس لیے کہ اسلام کسی چیز کو حرام یاحلال قرار دیتا ہے تو اس کی ایک حقیقت سامنے ہوتی ہے ،اسی پر احکام کا دارومدار ہوتا ہے ،شکل و صورت کے بدلنے سے احکام میں کوئی فرق نہیں آتا ،قرآن نے شراب کو حرام قرار دیا ہے ،زمانۂ نبوت میں وہ جس شکل و صورت کے ساتھ معروف تھی اور اس کے بنانے کے جو طریقے رائج تھے وہ سب بدل گئے مگر چونکہ حقیقت نہیں بدلی اس لیے حکم بھی نہیں بدلا ،وہ بدستور حرام رہی ۔قرآن کریم نے خنزیر کا گوشت حرام قرار دیا ،چاہے جدید دور میں اسے کتنی ہی اعلی غذا دے کر فارموں میںپالاجائے وہ پھر بھی حرام ہی رہے گا ۔الفحشاء (بدکاری ) کی صورتیں اس زمانے میں کچھ اور تھیں آج کچھ اور ہیں ،ان میں زمین آسمان کا تفاو ت ہے مگر بدکاری بدکاری ہی ہے اور قرآن کے وہی احکام اس پر نافذ ہیں ۔سود اور قمار کا بھی یہی حال ہے ،اس زمانے میں اس کی جو شکل و صورت رائج تھی آج اس سے بہت مختلف صورتیں رائج ہیں ،مگر جس طرح شراب ،خنزیر اور بدکاری حرام ہے اسی طرح سود وقمار بھی حرام ہے ۔