ماہنامہ انوار مدینہ لاہورجولائی 2002 |
اكستان |
|
تجارتی سود کی حرمت کو بالتفصیل جاننے کے لیے ہم مولانا محمد عمران صاحب عثمانی کی کتاب ''شرکت ومضاربت عصر حاضرمیں '' سے ایک اقتباس نقل کرنا مناسب خیال کرتے ہیں ۔وہ تحریر فرماتے ہیں : سترہویں صدی عیسوی میں نظام بینکاری وجود میں آنے کے بعد سود کی دو نئی اصطلاحات بھی اُبھریں ۔ان دو اصطلاحات کی تعریف یہ کی گئی ہے : (١) تجارتی سود : (Commercial lntrest) کسی نفع آور پیداواری (Productive) مقاصد کے لیے حاصل کردہ قرضہ پر جوسود لیا جائے وہ تجارتی سود کہلاتاہے۔ (٢) مہاجنی یا صرفی سود : (Usuary) قرض اگر ذاتی ضرورت او ر صرفی مقاصد کے لیے لیا گیا ہو تو اس پراضافہ مہاجنی یا صرفی سود کہلاتا ہے ۔ دونوںاصطلاحات کا پس منظر : بینکاری کا موجودہ نظام جس نے سود کو اخلاقی اور قانونی سندِجواز فراہم کی ، عصر حاضر کے سرمایہ دارانہ نظام کی ریڑھ کی ہڈی ہے ۔جب مسلم ممالک سیاسی طور سے مغرب کے زیر نگیں اور معاشی میدان میں ان کے دست نگر ہوگئے تو انیسویںصدی کے بعض مغرب زدہ مسلمانوں نے ایک طرف تو مغرب کی ان روز افزوں ترقیات کو دیکھا جو صنعت اور تجارت کے میدان میں انہیں حاصل ہو رہی تھیں اور دوسری طرف ان کی نگاہ اپنی ہم مذہب قوم کی معاشی پستی اور اقتصادی زبوں حالی پربھی پڑی ،ساتھ ہی انہیں ا س بات کا بھی احساس ہو ا کہ صنعت و تجارت کے میدان میں بینک ایسے ناگزیر ادارے کی حیثیت رکھتے ہیں جن کی اہمیت صرف قومی ہی نہیں بین الاقوامی ہے اس چیز نے انہیں یہ کہنے پرآمادہ کیا کہ حرام صرف مہاجنی یا صرفی سود ہے نہ کہ تجارتی سود (Intrest) ،کیونکہ تجارتی سود کوحرام سمجھنے سے اس صنعت وتجارت کی راہ میں ناقابلِ عبور دشواریاں حائل ہو جائیں گی ۔ مگر یہ پریشان کن مسئلہ کہ قرآن وسنت نے ربا اور ربا پر مبنی سارے معاملات کی بالتصریح حرام کیا ہے اس طرح حل کیا گیا کہ ربا کے لفظ کا ترجمہ''یوژری ''کر دیا گیا ،اوراسے'' انٹر سٹ ''کے لفظ کے مغربی تصور سے مختلف بتایاگیا اس طرح یہ سمجھا گیا کہ قرآن کا رباجو حرام قرار دیاگیا تھا وہ یوژری تھا ،انٹرسٹ کی حرمت سے اسے کوئی سروکار نہ تھا ۔ ہند وستان میں اس طرز فکر کی ابتداء سرسید احمد خان مرحوم سے ہوئی اور ان کی پیروی ان کے مکتب خیال کے لوگوں نے کی مثلاً نذیر احمد، سیّد طفیل احمد منگلوری اور اقبال سہیل وغیرہ ،بعض مصری علما ء مثلاً شیخ محمدعبدہ، توفیق آفندی، شیخ اسماعیل خلیل اور ترکی کے تجدد پسند حضرات نے بھی اس طرح کے خیالات ظاہر کئے۔