اگر مالی اور خاندانی اعتبار سے کوئی مرد کسی خاتون کا کفو (مساوی) ہو ، لیکن وہ شراب کا عادی ہو، تو اسے اس خاتون کا کفو نہیں سمجھا جائے گا، اور اس کی شادی اس سے نہ ہوسکے گی۔
حضرت عبد اللہ بن عباس سے مروی ہے :
مَنْ زَوَّجَ بِنْتَہُ اَوْ وَاحِدَۃً مِنْ اَہْلِہِ مِمَّنْ یَشْرَبُ الْخَمْرَ فَکَانَّمَا قَادَہَا اِلَی النَّارِ۔(کنز العمال/۵:۱۴۱)
جو اپنی بیٹی یا اپنے اہل خانہ میں سے کسی کا نکاح شرابی سے کردیتا ہے تو گویا وہ اسے جیتے جی جہنم میں دھکیل دیتا ہے ۔
حضرت علی سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مَنْ شَرِبَ الْخَمْرَ بَعْدَ اَنَّ حَرَّمَہَا اللّٰہُ تَعَالیٰ عَلَی لِسَانِیْ فَلَیْسَ لَہُ اَنْ یُزَوَّجَ اِذَا خَطَبَ، وَ لَایُشَفَّعُ اِذَا شَفَعَ، وَلایُصَدَّقُ اِذَا حَدَّثَ، وَلَایُوْتَمَنُ عَلَی اَمَانَۃٍ۔ (کنز العمال/۵:۱۴۳)
اللہ کی طرف سے میری زبانی شراب کی حرمت آجانے کے بعد بھی جو شرا ب پیئے تو اس کے ساتھ یہ معاملہ ہونا چاہئے کہ وہ پیغام نکاح دے تو پیغام قبول نہ کیا جائے،اپنے اہل خانہ میں کسی سے اس کا نکاح نہ کیا جائے، وہ سفارش کرے تو اس کی سفارش قبول نہ کی جائے،وہ کچھ کہے تو اسے سچا نہ سمجھا جائے اور کسی امانت کے سلسلہ میں اسے امین نہ سمجھا جائے۔
شراب کے ان گنت نقصانات کی وجہ سے اس کے ناموں میں ایک نام’’الاثم‘‘