حساسیت اور بیدار مغزی کے ساتھ اپنی نگرانی میں ان کا صرف مثبت اورمفید استعمال ہی ہونے دیں گے، تبھی اولاد گناہوں سے محفوظ رہ سکے گی۔
آج صورت حال یہ ہے کہ زندگی کے ہنگاموں اور مشغولیات میں والدین کو اپنی اولادکی دینی و اخلاقی تربیت کی فرصت ہی نہیں ہے اور نہ ہی اس کے ضروری ہونے کا انہیں احساس ہے، ٹی وی اور رقص و سرود کاکلچر گھر سے لے کر بازار تک اور اسکول سے لے کر تقریبات تک بالکل عام ہے، خلوت کی زندگی میں جوانی کی دہلیز پر پہونچتی اولاد موبائل، نیٹ وغیرہ کے ذریعہ کیا کررہی ہے، وہ بے حیائی کی راہ پر کس طرح جارہی ہے اور منشیات کی لعنت میں کس طرح مبتلا ہورہی ہے، اس کی کوئی فکر والدین کو نہیں رہتی ہے، نتیجہ سامنے ہے کہ نوجوانوں کی وہ نسل سامنے آرہی ہے جو شراب کی رسیا اور بگاڑ کا مرکب ہے۔
(۳) بے کاری اور بڑھتی ہوئی بے روزگاری
بے کاری اور کسی مثبت، صحت مند اور مفید مشغولیت کا نہ ہونا انسان کو بگاڑ کی راہ پر لے جانے کا بہت طاقت ور ذریعہ ہوتا ہے، ایسے لوگوں تک شیطان کی رسائی بہت آسانی سے ہوتی ہے، شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں :
إِنَّ الْقَلْبَ إِذَا لَمْ یَمْتَلِیْٔ مِنْ مَحَبَّۃِ اللّٰہِ، اِمْتَلأَ مِنْ مَحَبَّۃِ الشَّیْطَانِ، فَقَادَہُ الشَّیْطَانُ کَمَا تُقَادَ الدَّابَّۃُ حَتَّی یُوْرِدَہُ مَوَارِدَ الْبَوارِ۔( المخدرات: عائض/۱۹)
اگر دل میں اللہ کی محبت نہ ہو توشیطان کی محبت جگہ بنالیتی ہے، پھر شیطان دل کواپنے قابو میں کرلیتا ہے ، جیسے جانور کو قابو میں کیا جاتا