شناعت اور اخروی سزاؤں کو واضح کرکے دلوں میں شراب سے دوری اورنفرت کے جذبات مضبوط کرتا ہے، دوسری طرف مے نوشی کے مکمل انسداد کے لئے شریعت نے اس پر ۸۰؍ کوڑوں کی حد بھی متعین کی ہے، دنیا کے جن قوانین میں بھی شراب نوشی کوجرم بتایا گیا اور اس پر پابندی لگائی گئی اور اس پر بے پناہ دولت خرچ کی گئی، اس کا الٹا اثر ہوا، بالآخر امریکہ میں ہار مان کر دوبارہ مے نوشی کو قانونی اجازت دی گئی، ہندوستان میں بھی قانونی طور پر شراب کے ممنوع ہونے کے باوجود حکومت کی سرپرستی میں شراب کا کاروبار ناسور کی طرح معاشرے میں رائج ہے، جس سے آنے والی تباہی عیاں ہے،شراب کے کاروبار کو تجارتی و اقتصادی نقطۂ نظر سے بے حد مفید قرار دے کراس کے حق میں گنجائش کا پہلو خوب بیان ہوتا ہے مگر اس کے تباہ کن مضر اور زہریلے اثرات و نتائج پر نظرہو تو چندمعمولی اور حقیر فائدے ان خطرنانک نقصانات کے سامنیپرِکاہ کے برابر بھی حیثیت نہیں رکھتے، اسلام نے اسی لئے اس پرحد متعین کی ہے، اور موجوددور میں اس کی سزا کی تنفیذ شراب نوشی پر روک لگاسکتی ہے، اس کا اعتراف انصاف پسند غیر مسلم بھی کرتے ہیں ۔
(۷) ٹھوس اور منصوبہ بند مسلسل منشیات مخالف اصلاحی مہم
سماج سے منشیات کی لعنت ختم کرنے کے لئے سماج کے مصلحین کی طرف سے مسلسل منصوبہ بند مہم چلائی جائے، افسوس کا مقام یہ ہے کہ سماجی اصلاح کاعلم اٹھانے والے افراد اور تحریکات کی طرف سے منشیات سے پاک سماج کی تشکیل دینے کی سمت میں کوئی ٹھوس اور موثر اقدام نہیں ہورہا ہے، نہی عن المنکر اس امت کے امتیازات میں سے ہے ،اور اس فرض کی ادائیگی کے بغیر اس لعنت پر قدغن نہیں لگائی جاسکتی ۔