(۱۱) عبادت سے غافل اور معاصی کا عادی بنادیتی ہے۔
(۱۲) پوری زندگی کو بے سکونی اور بے چینی کی نذر کردیتی ہے۔
انہیں خطرناک ہمہ جہت نقصانات کے پیش نظر متعدد اہل علم کا یہ قول منقول ہے :
لأََنْ اَرَی اِبْنِی یَزْنِیْ اَوْ یَسْرِقُ اَحَبُّ اِلَیَّ مِنْ اَنْ یَسْکَرَ،یَاْتِیْ عَلَیْہِ وَقْتٌ لَایَعْرِفُ اللّٰہَ فِیْہِ۔(نضرۃ النعیم/۱۰:۴۷۰۸)
میری اولاد زنا یا چوری کا جرم کرے، یہ اس کی بہ نسبت بہتر ہے کہ وہ نشہ کی لعنت میں مبتلا ہوجائے اور اس کے روز وشب میں ایسا وقت بھی آئے کہ وہ اللہ کی معرفت سے محروم رہے۔
حضرت عبد اللہ بن عمرؓو سے منقول ہے :
لَاَنْ اَزْنِیَ اَحَبُّ اِلَیَّ مِنْ اَنْ اَسْکَرَ، وَلاَنْ اَسْرِقَ اَحَبُّ اِلَیَّ مِنْ اَنْ اَسْکَرَ، لِاَنَّ السَّکْرَانَ یَأَتْیِ عَلَیْہِ سَاعَۃٌ لَایَعْرِفُ فِیْہَا رَبَّہُ۔ ( شعب الایمان:بیہقی:باب فی المطاعم والمشارب:۵/۱۳)
میں زنا کروں ، یہ شراب کی بہ نسبت ہلکی بات ہے،میں چوری کروں یہ بھی شراب کے مقابلہ میں معمولی بات ہے،اس لئے کہ شرابی پر وہ لمحہ ضرور آتا ہے جس میں وہ اپنے رب کو بھی نہیں پہچانتا۔
شراب اور نشے کے ان بے پناہ مضرِ صحت و ایمان پہلوؤں کی وجہ سے امام احمد بن حنبلؒ اور دیگر فقہاء نے یہاں تک صراحت کی ہے:
إِذَا کَانَ الرَّجُلُ کُفْؤَا الْمَرأَۃِ فِیْ الْمَالِ وَ الْحَسَبِ، إِلاَّ اَنَّہُ یَشْرَبُ الْخَمْرَ الْمُسْکِرَ، لَاتُزَوَّجُ عَنْہُ، لَیْسَ بِکُفْؤٍ لَہَا۔ (نضرۃ النعیم/۱۰:۴۷۶۰)