اہل کتاب (یہود ونصاریٰ) کو حکمت ودانائی کے ساتھ نصیحت کریں ، سمجھائیں ، انہیں اسلام کے قریب لائیں ، کوئی تنازعہ، عداوت اوربغضِ بیجا نہ ہو، قرآن میں فرمایا گیا ہے:
وَلاَ تُجَادِلُوْا أَہْلَ الْکِتَابِ إِلاَّ بِالتَّیْ ہِیَ أَحْسَنُ، إِلاَّ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْہُمْ، وَقُوْلُوا آمَنَّا بِالَّذِیْ أُنْزِلَ إِلَیْنَا وَأُنْزِلَ إِلَیْکُمْ وَإِلٰہُنَا وَإِلٰہُکُمْ وَاحِدٌ، وَنَحْنُ لَہُ مُسْلِمُوْنَ۔ (العنکبوت:۴۶)
اور اہل کتاب سے بحث نہ کرو مگر عمدہ طریقہ سے، سوائے ان لوگوں کے جو ان میں سے ظالم ہوں ، اوران سے کہو کہ ہم ایمان لائے ہیں اس چیز پر بھی جو ہماری طرف بھیجی گئی ہے اور اس چیز پر بھی جو تمہاری طرف بھیجی گئی تھی، ہمارا خدا اور تمہارا خدا ایک ہی ہے اور ہم اسی کے مطیع ہیں ۔
آیت صاف واضح کررہی ہے کہ متبعین اسلام ہر مرحلہ پرشائستگی، شرافت اورمعقولیت کا ثبوت دیں ، سختی کا جواب نرمی سے، غصہ کا جواب حلم سے اورجاہلانہ گفتگو اور شوروغوغا کا جواب نرم اور باوقار گفتگو سے دیں ، ہاں اگر مثبت وسنجیدہ گفتگو اورمعقولیت کے مقابلہ میں مخاطب عناد وہٹ دھرمی سے کام لے تو اس کا جواب عاجزی ومسکینی سے نہیں بلکہ ترکی بہ ترکی دیا جاسکتا ہے، مگر اس صورت میں بھی بہتر یہی ہے کہ نرمی اورمعقولیت کو پیش نظر رکھا جائے، قرآن کی سورۂ نحل میں مسلمانوں کو مشرکین کے ساتھ بھی اسی طرح کے سلوک کی ہدایت کی گئی ہے ، فرمایا گیا:
اُدْعُ إِلَی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَجَادِلْہُمْ بِالْتِّیِ ہِیَ أَحْسَنُ۔ (النحل: ۱۲۵)
آپ اپنے رب کے راستہ کی طرف حکمت اور عمدہ پندونصیحت کے ساتھ دعوت دیجئے اور لوگوں سے بہترین طریقہ پر مباحثہ کیجئے ۔