اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اَسْتَحْیُوا مِنَ اللّٰہِ حَقَّ الْحَیَائِ، مَنْ اَسْتَحْیَ مِنَ اللّٰہِ حَقَّ الْحَیَائِ فَلْیَحْفَظَ الرَّأسَ وَمَا حَوَیٰ، وَلِیَحْفَظَ الْبَطَنُ وَمَاوَعَیٰ، وَلْیَذْکُرِ الْمَوْتَ وَالْبَلَیٰ، فَمَنْ فَعَلَ ذَلِکَ فَقَدْ اسْتَحَیٰ مِنَ اللّٰہِ حَقَّ الْحَیَائِ۔ (ترمذی)
اللہ سے کما حقہ حیا کرو، اور اللہ سے حیا کا حق ہے کہ سر اور اس کے افکار وخیالات کی نگہداشت کرو، اور پیٹ کی اور جو کچھ اس میں بھرا ہوا ہے سب کی نگرانی کرو (یعنی برے خیالات سے دماغ کی اور حرام وناجائز غذا سے پیٹ کی حفاظت کرو) اور موت اور اس کے بعد قبر میں تمہاری جو حالت ہونی ہے اسے یاد رکھو، جس نے یہ سب کیا اللہ سے حیا کا حق اس نے ادا کیا۔
ایک حدیث میں آیا ہے کہ :
اَلْحَیَائُ شُعْبَۃٌ مِنَ اْلإِیْماَنِ۔(متفق علیہ)
حیا ایمان کا ایک اہم شعبہ ہے۔
دیگر احادیث میں کہیں تو حیا کو سراپا خیر اور باعث خیر قرار دیا گیا ہے اور کہیں اسے ایمان کا خلق ومزاج بتایا گیا ہے، کبھی یہ ارشاد ہوا کہ:
إِنَّ الْحَیَائَ وَالإِیْمَانَ قَرْنَاء جَمِیْعاً، فَإِذَا رُفِعَ أَحَدَہَا رُفِعَ الآخَرَ۔ (شعب الایمان:بیہقی)
حیا وایمان یکجا رہتے ہیں ، اگر اُن میں سے کوئی ایک اٹھالیا جائے تو دوسرا بھی اٹھالیا جاتا ہے۔
اور کبھی یہ فرمایا کہ :