ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2017 |
اكستان |
|
مستحبات ہیں اور ان کی تفصیل و تشریح بھی شریعت ِمحمدیہ میں وادر ہوئی ہے۔ یہ وہ آداب ہیں جن کا برتنا مخلوق کے لیے باعث ِراحت و رحمت ہے۔ خلاصہ یہ کہ لفظ اَدب کی جامعیت حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں کو شامل ہے ،یہ جو حضور اقدس ۖ نے فرمایا کہ اچھے اَدب سے بڑھ کر کسی باپ نے اپنے بچہ کو کوئی بخشش نہیں دی، اس میں پورے دین کی تعلیم آجاتی ہے کیونکہ دین اسلام اچھے اَدب کی مکمل تشریح ہے۔ بہت سے لوگ لفظ اَدب کے معروف معنی لے کر اِس کا رواجی مطلب لے لیتے ہیں اور اُنہوں نے اُٹھنے بیٹھنے کے طریقوں تک ہی اَدب کا انحصار سمجھ رکھا ہے۔ حدیث میں یہ جو فرمایا کہ انسان اپنے بچہ کو اَدب سکھائے تو یہ اِس سے بہتر ہے کہ ایک صاع غلہ وغیرہ صدقہ کرے۔ اس میں ایک اہم بات کی طرف توجہ دلائی گئی ہے وہ یہ کہ صدقہ خیرات اگرچہ فی نفسہ بہت بڑی عبادت ہے (اگر اللہ کی رضا کے لیے ہو) لیکن اِس کا مرتبہ اپنی اولاد کی اصلاح پر توجہ دینے سے زیادہ نہیں ہے، بہت سے لوگوں کو اللہ جل شانہ نے مال دیا ہے اُس میں سے صدقہ و خیرات کرتے ہیں اور اولاد کی طرف سے پوری غفلت برتتے ہیں، مسکین آرہے ہیں گھر پر کھارہے ہیں غریبوں کی روٹی بندھی ہوئی ہے مدرسہ اور مسجدوں میں چندہ جارہا ہے لیکن اولاد بے اَدب، بد اخلاق، بے دین بلکہ بد دین بنتی چلی جارہی ہے،صدقہ و خیرات کرنے پر خوش ہیں اور خوش ہونا بھی چاہیے لیکن اِس سے بڑھ کر عمل جو ہے جس کی ذمہ داری ڈالی گئی ہے وہ اپنی اولاد کو ادب سکھانا ہے یعنی اللہ کے راستہ پر ڈالنا ہے اس کے لیے فکر مند ہونا لازمی اَمر ہے، اس غفلت سے نسلیں کی نسلیں تباہ ہوجاتی ہیں۔ ماں باپ کا فریضہ ہے کہ بچوں کو دین سکھائیں اور دین کو سب سے زیادہ اہمیت دیں کیونکہ دین ہی آخرت کی ہمیشہ والی زندگی میں کام آنے والا ہے، بہت سے لوگ بچوں سے بہت زیادہ محبت کرتے ہیں مگر اُن کی یہ محبت صرف دُنیاوی آرام و راحت تک محدود رہتی ہے، اُن کی اصل ضرورت یعنی آخرت کی نجات اور موت کے بعد کے آرام و راحت کی طرف توجہ نہیں کرتے، حلال مال سے حلال طریقے پر کھلانا پلانا اور پہنانا اچھی بات ہے لیکن انسان کی سب سے بڑی ضرورت آخرت کا آرام اور سکون ہے۔