ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2017 |
اكستان |
|
ہوا ہے خصوصًا حضرت عائشہ تو سب میں مثل آفتاب علوم و فقہ و حکمت و شعر وغیرہ(میں ممتاز) معلوم ہوئی ہیں، صحابہ رضوان اللہ علیہم پر جب کبھی کسی مسئلہ میں اشکال پیش آتا تھا اور کوئی صورت فیصلہ کی نہیں ہو سکتی تھی تو ان ازواج کی طرف رجوع کرتے اور مفید باتیں معلوم کرتے تھے تقریبًا نصف ان کے اور خصوصًا حضرت عائشہ کے ذریعہ سے معلوم ہوئیں اس مقام کی تفصیل کتب حدیث میں مکمل موجود ہے ۔تعددِ ازواج کا سیاسی پہلو : علاوہ ازیں ان امورِ مذکورہ کے تعدد ِازواج سے بہت سے سیاسی مسائل کا بھی عمل ہوا ہے اور مختلف خاندانوں سے تعلقات قائم ہوکر اسلامی ترقیات کے اسباب و سائل وجود میں آئے ہیں اور غالبًا یہی وجہ ہے کہ کوئی عورت آپ کے نکاح میں بنی ہاشم میں سے نہیں ہے کیونکہ وہ اپنا خاندان تھا اس سے تعلق پیدا کرنا کوئی اہم امر نہ تھا، اس سے یہ بھی معلوم ہو گیا کہ آپ کی شان تعدد ِ ازواج میںاُمت سے نرالی اور علیحدہ ہے اس لیے ان کو چار سے زیادہ کی اجازت نہیں ہوسکتی۔آنحضرت ۖ کی قوت ِ رجولیت اور انتہائی نفس کُشی : اب ہم ناظرین کو ایک دوسری طرف متوجہ کرنا چاہتے ہیں جنابِ رسول اللہ ۖ کی آخری عمر ہے اور اُمور مذکورة الصدر ایسے ایسے درپیش ہیں مگر اس حالت میں نو عورتیں نکاح میں موجود ہیں اور ہر ایک کے پاس نوبت بہ نوبت شب باشی فرماتے ہیں چونکہ ہر عورت کی نوبت کم سے کم آٹھویں دن آتی ہے لہٰذا اس عورت کو حقوق ادا کرنے کی بنا پر(اسی قسم کے مقام پر حضرت عبد اللہ بن عمر اور ابو درداء رضی اللہ عنہم وغیرہ سے یہ ارشاد مروی ہے وَاِنَّ لِزَوْجِکَ عَلَیْکَ حَقًّا )ضرور بالضرور ہر شب ہم بستری کی نوبت آتی ہے اس لیے اندازہ کرنے کی ضرورت ہے کہ جس ہستی میں قوت ِ مجامعیت اس بڑھاپے میں باوجود اس قدر موانع کے اتنی ہو کہ وہ ہر شب میں کم سے کم ایک مرتبہ ہمبستری کرے اُس کی قوت جوانی کے زمانہ میں کتنی ہوگی پھر اُس کا پچیس برس تک بے زوجہ رہنا اور پچیس برس کے بعد پچیس برس تک فقط ایک ہی (بوڑھی) زوجہ پر اکتفا کرنا کس قدر اپنے نفس کو مارنا اور زہد و ریاضت کرنا ہوگا،ہر شخص انصاف و عقل سے اس کا فیصلہ کر سکتا ہے۔