ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2017 |
اكستان |
|
(١) ایک دوسرے کا احترام کیا جائے (سامنے بھی اور پیٹھ پیچھے بھی) یعنی کسی برادری یا خاندان کا مذاق نہ اُڑایا جائے۔ (٢) ایسا نام نہ ڈالا جائے جس سے اُس کے جذبات کو ٹھیس لگے اور وہ اس میں اپنی توہین محسوس کرے۔ (٣) کسی معقول ثبوت کے بغیر کسی کے متعلق بدگمانی نہ کی جائے، گندے خیالات نہ دوڑائے جائیں، کسی کی کمزوری کی ٹوہ نہ رکھی جائے جو کچھ کہنا ہو منہ پر کہا جائے پیٹھ پیچھے برائی نہ کی جائے۔ اگر یہ باتیں ہمارے مجلسی آداب میں سمو جائیں تو ہمارا معاشرہ اور سماج ٹھیک ہوجائے گا اور جب قوم کے معاشرے درست ہوں گے تو صالح جمہوریت جلوہ فرماہوگی۔(ج) جذبۂ تقدم و ترقی میں اعتدال : عجیب بات یہ ہے کہ جس سورت کی تیرہویں آیت میں انسانی برادری اور مساوات کی تعلیم دے کر صالح جمہوریت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اُس کی سب سے پہلی آیت کا مفہوم یہ ہے : ''اے ایمان والو ! آگے نہ بڑھو اللہ سے اور اُس کے رسول سے اور ڈرتے رہو اللہ سے '' یعنی تقدم اور ترقی تو ایک فطری جذبہ ہے، بچہ گہوارے کی زندگی میں بھی چاہتا ہے کہ ساری دنیا اس کی تابع فرمان رہے ، کوئی بات اپنی مرضی کے خلاف دیکھتا ہے تو چیختا ہے اور چلانا شروع کردیتا ہے کچھ ہوش آتا ہے تو فطری شوق کی چیز یعنی کھیل کود میں سب سے آگے رہنے کی کوشش کرتا ہے اس کے لیے سب سے زیادہ دلچسپ لفظ ''میری،میرا'' ہوتا ہے جبکہ پھسڈی (پیچھے رہنے والا) کے لفظ سے اُس کو نفرت ہوتی ہے۔ قرآنِ حکیم نے اس فطری جذبہ کی تعلیم ضروری نہیں سمجھی کیونکہ دوڑنے والے سے یہ کہنا بیکار ہے کہ ''دوڑو'' البتہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ انسانیت سے چلو، سیدھے چلو، سنبھل کر چلو، لہٰذا قرآنِ حکیم ترقی پذیر اور جذبہ تقدم سے سر شار ''جمہوریہ'' کو یہ ہدایت کررہا ہے کہ جذبۂ ترقی میں اعتدال رکھو۔ اعتدال یہ ہے کہ قانون کی حدود سے آگے نہ بڑھو، انسانوں کی ترقی کے ساتھ انسانیت کی بھی