ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2017 |
اكستان |
|
پاس آئے اور درخواست کی کہ امیر المومنین ! جتنے درہم میں آپ نے یہ غلہ شام سے خریدا ہے اُسی کے برابر نفع دے کر ہم خریدنے کو تیار ہیں، حضرت عثمان نے جواب دیا کہ اِس سے زیادہ قیمت لگ چکی ہے تو تاجروںنے کہا اچھا دو گنے نفع پر دیجئے ،حضرت نے پھر جواب دیا کہ اس سے بھی زیادہ کا بھاؤ لگ چکا ہے، تاجر بھی نفع بڑھاتے رہے تا آنکہ پانچ گنے تک نفع پر آ گئے اور حضرت عثمان پھر بھی تیار نہ ہوئے اور یہی فرماتے رہے کہ اِس کی زیادہ قیمت لگ چکی ہے، یہ سن کر تاجروں نے کہا کہ آخرکس نے آپ سے زیادہ قیمت لگادی مدینہ کے تاجر تو ہم ہی ہیں، حضرت عثمان نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے دس گنا عطا کرنے کا فیصلہ فرمایا ہے تو کیا تم لوگ اتنا یا اس سے زیادہ دینے پر راضی ہو ؟ تاجروں نے انکار کردیا پھر حضرت عثمان نے اعلان کیا کہ اے لوگو ! میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ یہ سارا غلہ مدینہ کے فقرا اور مساکین پر صدقہ ہے اور وہ غلہ سب محتاجوں میں تقسیم فرمادیا۔ ١حضرت علی کی سخاوت : ابو جعفر کہتے ہیں کہ اگرچہ انتقال کے وقت حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سالانہ آمدنی ایک لاکھ درہم تک پہنچ گئی تھی لیکن شہادت کے دن ستر ہزار درہم قرض تھے، میں نے لوگوں سے پوچھا کہ آخر اتنا زیادہ قرض آپ پر کیسے ہو گیا تو جواب ملا کہ بات یہ تھی کہ آپ کے وہ دوست احباب اور رشتہ دار جن کا مالِ غنیمت میں باقاعدہ حصہ مقرر نہیں آپ کے پاس آکر سوال کرتے تو آپ انہیں مرحمت فرماتے جاتے تھے، آپ کی وفات کے بعد حضرت حسن نے آپ کی جائیداد وغیرہ بیچ کر قرض ادا کیا اور ہر سال حضرت علی کی طرف سے سو غلام آزاد فرمایا کرتے تھے حضرت حسن کے بعد سیّدنا حضرت حسین اس سنت کو زندہ رکھے رہے یہاں تک کہ شہید ہوگئے پھر بعد میں یہ سنت جاری نہ رہ سکی ٢حضرت طلحہ کی سخاوت : (٩) حضرت طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ اپنی زمین حضرت عثمان کے ہاتھ سات لاکھ درہم میں بیچی، جب یہ رقم آپ کے پاس آئی تو آپ کو خیال ہوا کہ اگر یہ مال رات بھر رکھا رہا ------------------------------١ الترغیب والترہیب للیافعی ص ٨٧ ٢ مکارم الاخلاق ص ٢٧٠