ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2017 |
اكستان |
|
پیٹ بھرا ہواسمجھا۔ (٤) معدہ بھاری ہوگیا۔ (٥) خواہشاتِ نفسانی زیادہ ہوگئیں۔ (٦) یہ حالت ہوگی کہ مسلمان مسجدوں میں آرہے ہوں گے اور یہ بیت الخلا جارہا ہوگا اللہ کے بندے بیت اللہ کا چکر لگائیں گے اور یہ کوڑیوں کا گشت کررہا ہو گا۔ ہفتم : دنیوی تفکرات کم ہو جائیں گے اور فکر معاش کا بارہلکا ہو جائے گا کیونکہ جب بھوک کی عادت ہو گی تو تھوڑی سی دنیا پر قناعت کر سکے گا اور پیٹ کی خواہش کو پورا کرنے کو دوسروں سے قرض نہ لے گا بلکہ اپنے ہی نفس سے قرض مانگ لے گا یعنی اس کو خالی رکھے گا۔ شیخ ابراہیم ابن ادہم سے جب کہا جاتا تھا کہ فلاں چیز گراں ہوگئی تو یوں فرمادیا کرتے تھے کہ'' ترک کردو اور اس کی خواہش چھوڑ کر اس کو اَرزاں بنادو'' اس سے زیادہ سستی چیز کیا ہوسکتی ہے کہ اس کو خریداہی نہ جائے۔مقدارِ طعام کے مراتب : چونکہ شکم سیری اور زیادہ کھانے کی لوگوں کو عادت پڑی ہوئی ہے اس لیے یک لخت اس کا چھوڑنا دُشوار ہے لہٰذا اپنی خوراک میں روزانہ ایک لقمہ کم کر دیا کرو تو مہینہ بھر میں ایک روٹی کم ہو جائے گی اور کچھ گراں بھی نہ گزرے گا اور جب اس کی عادت ہو جائے تو اب مقدار اور وقت اور جنس کی طرف توجہ کرو کہ رفتہ رفتہ اعلیٰ درجہ پر پہنچ جائو، یادرکھو کہ کھانے کی مقدار کے تین درجے ہیں : اعلیٰ درجہ : صدیقین کا ہے یعنی بس اتنا کھانا چاہیے کہ جس سے کمی کرنے میں زندگی جاتی رہے یا عقل میں فتور آجائے، اِس سے زیادہ کھانا اس مرتبہ میں گویا پیٹ بھر کر کھاناہے جس کی ممانعت ہے۔ حضرت سہل کے نزدیک یہی مختار ہے ان کی رائے یہ تھی کہ بھوک کے ضعف کی وجہ سے بیٹھ کر نماز پڑھنا شکم سیری کی قوت کے سبب کھڑے ہو کر نماز پڑھنے سے افضل ہے۔ متوسط درجہ : یہ ہے کہ روزانہ نصف مدیعنی دو تہائی رطل(ایک رطل چوالیس تولہ یعنی کچھ