ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2017 |
اكستان |
|
پاس آیا اُنہوں نے بھی ایک لاکھ تیس ہزار درہم دیے، اس طرح صرف تین حضرات سے تین لاکھ ساٹھ ہزار درہم جمع ہوگئے چنانچہ ہاشمی اپنے دعوی میں اُموی پر غالب آگیا ،پھر یہ طے ہوا کہ یہ مال جن سے لیا ہے اُنہیں لوٹا دیا جائے چنانچہ اُموی شخص اپنا جمع کردہ مال لے کر مالکان کے پاس گیا اور پوری صورت واقعہ بتا کر مال واپس کردیا اور ان سب نے قبول بھی کر لیا اور ہاشمی شخص جب مال لوٹانے گیا تو اُن حضرات نے لینے سے انکار کردیا اور فرمایا کہ ہم دے کر واپس نہیں لیا کرتے۔ ١حضرت لیث بن سعد کی سخاوت : (١٩) حضرت لیث بن سعد رحمة اللہ علیہ بڑے مالدار تھے اِن کی سالانہ آمدنی اَسی ہزار اشرفی تھی لیکن کبھی بھی ان پر زکوة فرض نہیں ہوئی، وہ اپنا سب مال فقراء دوست احباب اور رشتہ داروں پر خرچ کردیتے تھے اور سال کے ختم پر ان کے پاس بقدرِ نصاب مال باقی نہیں رہتا تھا۔ ایک مرتبہ ان کے پاس ایک عورت شیشہ کے پیالہ کو لے کر حاضری ہوئی اور عرض کیا کہ میرا شوہر بیمار ہے اسے شہد کی ضرورت ہے اس پیالہ میں شہد عطا فرمادیں، آپ نے اسے شہد کا پورا برتن دینے کا حکم فرمایا، لوگوں نے پوچھا کہ اُس نے تو صرف ایک پیالہ مانگا تھا آپ نے پورا برتن دے دیا تو آپ نے جواب دیا کہ اس نے اپنے اعتبار سے مانگا اور ہم نے اپنے اعتبار سے دیا۔ ٢ قتیبہ فرماتے ہیں کہ لیث بن سعد روزانہ متعدد مسکینوں پر صدقہ کیا کرتے تھے نیز امام مالک ابن لہیعہ اور دیگر علماء کو ہدایا بھیجتے تھے۔ ٣حضرت عبداللہ بن عامر کی سخاوت : (٢٠) حضرت عبداللہ بن عامر نے خالد بن عقبہ سے ایک گھر ستر یا اسی ہزار درہم میں خریدا جب رات ہوئی تو محسوس ہوا کہ خالد کے گھر والے رو رہے ہیں، عبد اللہ بن عامر نے اپنے گھر والوں سے پوچھا کہ یہ رونے کی آواز کیسی ہے ؟ لوگوں نے جواب دیا کہ خالد کے گھروالے اپنے گھر کے فروخت ہونے پر غم کر رہے ہیں، یہ معلوم ہوتے ہی عبد اللہ بن عامر نے اُسی وقت اپنے غلام کو بھیجا کہ ------------------------------١ مکارم الاخلاق ٢٨٠ ٢ الترغیب و الترہیب ص ٨٩ ٣ شعب الایمان ج ٧ ص ٤٤٩