ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2017 |
اكستان |
|
بچوں کی خوشی کے لیے اُن کو غیر ضروری لباس بھی پہناتے ہیں، اُن کے لیے تصویریںمُورتیاں خرید کر لاتے ہیں اور اپنے گھروں کو اُن کی وجہ سے رحمت کے فرشتوں سے محروم رکھتے ہیں، اُدھار قرض کرکے اُن کی جائز ناجائز ضرورتوں اور شوقیہ زیب و زینت اور فیشن پر اچھی خاصی رقمیں خرچ کرتے ہیں لیکن اُن کو دین پر ڈالنے کی فکر نہیں کرتے، یہ بچوں کے ساتھ بہت بڑی دُشمنی ہے اگر دین نہیں تو آخرت کی تباہی ہوگی، وہاں کی تباہی کے سامنے دُنیا کی ذراسی چٹک مٹک اور چہل پہل کچھ بھی حقیقت نہیں رکھتی، اپنی اولاد کے سب سے بڑے محسن وہ ماں باپ ہیں جو اپنی اولاد کو دینی علم پڑھاتے ہیں اور دینی اعمال پر ڈالتے ہیں، یہ علم نہ صرف اولاد کے لیے بلکہ خود اُن کے والدین کے لیے بھی قبر میں اور آخرت میں نفع مند ہوگ ایک بزرگ کا ارشاد ہے اِنَّ النَّاسَ نِیَام فَاِذَا مَاتُوْا اِنْتَبَھُوْا یعنی لوگ سو رہے ہیں جب موت آئے گی تو بیدار ہوں گے۔ آخرت سے بے فکری کی زندگی گزارنے میں انسان کا نفس خوش رہتا ہے اور یہی حال بال بچوں اور دوسرے متعلقین کا ہے، اگر آخرت کی باتیں نہ بتائو اور کھلائے پلائے جائو دُنیا کا نفع پہنچائے جائو تو ہشاش بشاش رہتے ہیں اور اِس تغافل کو باعث ِنقصان نہیں سمجھتے لیکن جب آنکھیں بند ہوں گی اور قبر کی گود میں جائیں گے اور موت کے بعد کے حالات دیکھیں گے تو حیرانی سے آنکھیں پھٹی رہ جائیں گی عالمِ آخرت کی ضرورتیں اور حاجتیں جب سامنے ہوں گی تو غفلت پر رنج ہوگا اور حسرت ہوگی کہ کاش آج کے دن کے لیے خود بھی عمل کرتے اور اولاد کو بھی یہاں کی کامیابی کی راہ پر ڈالتے مگر اُس وقت حسرت بے فائدہ ہوگی۔ لوگوں کا یہ حال ہے کہ بچوں کو ہوش سنبھاتے ہی اسکول اور کالج کی نذر کردیتے ہیں یا محنت ومزدُوری پر لگادیتے ہیں، نماز روزہ سکھانے اور بتانے اور دینی فرائض سمجھانے اور اُن پر عمل کرانے کی کوئی فکر نہیں کرتے، شادیاں ہوجاتی ہیں باپ دادا بن جاتے ہیں لیکن بہت سوں کو کلمہ طیبہ بھی صحیح یاد نہیں ہوتا، نماز میں کیا پڑھاجاتا ہے اِس سے بھی واقف نہیں ہوتے، اَسّی اَسّی سال کے بوڑھوں کو دیکھا گیا ہے کہ دین کی موٹی موٹی باتیں بھی نہیں جانتے۔ فَاعْتَبِرُوْا یٰآ اُولِی الْاَبْصَارِ ۔