ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2017 |
اكستان |
|
(٤) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آنحضرت ۖ نے ایک مرتبہ ارشاد فرمایا کہ کسی مال نے مجھے اتنا نفع نہیں پہنچایا جتنا مجھے ابو بکر کے مال نے نفع پہنچایا ہے، یہ سن کر حضرت ابو بکر رونے لگے اور عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ! میں اور میرا مال تو صرف آپ ہی کے لیے ہے۔ ١حضرت عمر کی سخاوت : (٥) محمد بن سیرین رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ مجھے یہ خبر ملی ہے کہ ایک مرتبہ امیر المومنین سیّدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کے کسی رشتہ دار نے ان سے سوال کیا، آپ نے اُسے ڈانٹ کر مجلس سے نکال دیا، اس واقعہ پر لوگوں میں تبصرہ ہوا اور حضرت عمر سے پوچھا گیا کہ فلاں شخص کو کیوں نکال دیا گیا ؟ تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ وہ شخص اللہ کے مال کے بارے میں سوال کرنے آیا تھا ،اس میں سے اگر اُسے دے دیتا تو پھر اللہ کے دربار میں قیامت کے دن خیانت کرنیوالے حاکم کی صورت میں پیش ہو کر کیا معذرت کرتا، اگر اس شخص کو مانگنا تھا تو میرے ذاتی مال کا سوال کرتا پھر آپ نے اُسے دس ہزار درہم بھجوائے۔ ٢حضرت عثمانِ غنی کی سخاوت : (٦) غزوہ ٔ تبوک کے موقع پر سیّدنا حضرت عثمان نے مثالی قربانی کا ثبوت دیتے ہوئے تین سو اُونٹ مع سازو سامان صدقہ فرمائے اور پھر ایک ہزار اشرفیاں لے کر آنحضرت ۖ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہیں آپ کی گود میں ڈال دیا، راوی کہتا ہے کہ وہ اشرفیاں آنحضرت ۖ اپنے دست ِ مبارک سے اُلٹتے پلٹتے جاتے تھے اور یہ فرماتے جاتے تھے کہ مَاضَرَّا بْنُ عَفَّانَ مَا فَعَلَ بَعْدَ ھٰذَا (آج کے بعد عثمان کچھ بھی کرتے رہیں اُن کا کچھ نہ بگڑے گا) مطلب یہ ہے کہ اس صدقہ کی قبولیت کی برکت سے انہیں کامل خیر کی توفیق نصیب ہوگی۔ ٣ (٧) ایک مرتبہ مدینہ منورہ میں قحط سالی ہوئی، سیّدنا حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ نے شام کے علاقہ سے سو اُونٹ غلہ منگایا، جب غلہ سے بھرے اُونٹ مدینہ پہنچے تو شہر کے تاجر حضرت عثمان کے ------------------------------١ اُسد الغابہ ج ٣ / ٢٢٢ ٢ مکارم الاخلاق ص ٢٦٦ ٣ مکارم الاخلاق ص ٢٦٦