ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2017 |
اكستان |
|
بھی نہ دے، بہرحال حضرت حسین نے مجھے بلایا اور اپنے ساتھ کھلایا پھر پانی کی ایک چھوٹی نہر کی طرف گئے اور پانی پیا اور ہاتھ دھوئے پھر مجھ سے مخاطب ہو کر فرمایا کیسے آنا ہوا ؟ میں نے عرض کیا کہ میں اپنے کچھ اُونٹ لے کر یہاں حاضر ہوا ہوں میرا ارادہ آپ حضرات سے کھجوریں لے کر انہیں بھر کرلے جانے کا ہے ،حضرت نے فرمایا کہ جاؤاپنے اُونٹ لے آؤ چنانچہ میںلے کر حاضر ہوا تو فرمایا کہ اِس کوٹھری میں چلے جاؤ اس میں کھجوریں رکھی ہوئی ہیں جتنا بھر سکو بھرلو۔ راوی کہتے ہیں کہ میں نے اپنی ساری اُونٹنیاں بھرلی اور چلا آیا اور دل میں سوچنے لگا کہ واقعی یہ ہے سخاوت ۔ ١حضرت عبداللہ بن عباس کی سخاوت : (١٧) حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ بصرہ تشریف لائے اور حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے مہمان ہوئے ،آپ نے اپنا مکان حضرت ایوب انصاری کے لیے خالی فرمادیا اور کہا کہ جس طرح آپ نے (ہجرت کے موقع پر) آنحضرت ۖ کے ساتھ معاملہ فرمایا تھا اب میں بھی آپ کے ساتھ ویسا ہی معاملہ کروں گا، پھر پوچھا کہ آپ پر کتنا قرض ہے ؟ حضرت ابو ایوب نے فرمایا کہ بیس ہزار، چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عباس نے چالیس ہزار عطا فرمائے اور ساتھ ہی بیس غلام دے کر فرمایا کہ گھر میں جو بھی سامان ہے وہ بھی آپ ہی کی مِلک ہے۔ ٢خانوادہ ٔ نبوت کی سخاوت کا نمونہ : (١٨) حمید بن بلال کہتے ہیں کہ بنو ہاشم اور بنو اُمیہ کے دو آدمیوں میں بحث چھڑ گئی ایک نے کہا کہ میرا خاندان زیادہ سخی ہے دوسرے نے دعوی کیاکہ ہمارا خاندان زیادہ سخاوت کرنے والا ہے، بالآخر یہ بات طے ہوئی کہ اپنے اپنے خاندان والوں سے چندہ کا تجربہ کر کے فیصلہ کیا جائے چنانچہ دونوں شخص اپنی اپنی مہم پر روانہ ہوئے، اُموی شخص نے اپنی قوم کے دس آدمیوں سے صرف ایک لاکھ درہم جمع کیے جبکہ ہاشمی شخص اولاً عبید اللہ بن عباس کے پاس گیا اُنہوں نے ایک لاکھ درہم عنایت کیے پھر سیّدنا حضرت حسن کے پاس گیا اُنہوں نے ایک لاکھ تیس ہزار درہم دیے پھر سیّدنا حضرت حسین کے ------------------------------١ مکارم الاخلاق ٢٧٥ ٢ مکارم الاخلاق ص ٢٧٩