ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2017 |
اكستان |
|
وآرائش اِس کا دوسرا ٹکڑا ہے لہٰذا اوّل وہ اخلاقِ ذمیمہ معلوم ہونے چاہئیں جن سے قلب کو پاک رکھنا ضروری ہے سو اِن کے اصول بھی دس ہیں جن میں سے ہر ایک کا جدا جدا بیان کیا جاتا ہے۔(١) پہلی اصل ....... کثرتِ اکل اور حرصِ طعام کا بیان : زیادہ کھانا اور پیٹ بھرنے کی ہوس بیسیویں گناہوں کی جڑ ہے کیونکہ اِس سے جماع کی خواہش بڑھتی ہے اور جب شہوت بڑھتی ہے تو مال حاصل کرنے کی خواہش ہوتی ہے کیونکہ شہوتیں مال کے بغیرپوری نہیں ہوسکتیں اور اس کے بعد طلب ِجاہ کی خواہش ہوتی ہے کیونکہ جاہ کے بغیر مال کا حاصل کرنا دُشوار ہے اور جب مال و جاہ کی خواہش پیدا ہوگی توتکبرریا حسد کینہ عداوت غرض بہتیری آفتیں جمع ہوجائیں گی اور دین کی تباہی کا پورا سامان اکٹھا ہو جائے گا اس لیے حدیث میں بھوک کی زیادہ فضیلت آئی ہے رسولِ مقبول ۖ فرماتے ہیں کہ آدمی کے لیے بھرنے کے واسطے پیٹ سے زیادہ کوئی بُرابرتن نہیں، آدمی کو ضرورت کے لیے تو چند لقمے کافی ہیں جن سے زندگی قائم ہوسکے اور کمر مضبوط رہے اور اگر اس سے زیادہ ہی کھانا ضروری ہے تو پیٹ کے تین حصے کر لینے چاہئیں، تہائی حصہ کھانے کے لیے ہو اور تہائی حصہ پانی پینے کے لیے ہو اور تہائی حصہ سانس لینے کے لیے خالی چھوڑ دیا جائے۔تقلیلِ طعام کے فوائد : بھوک میں فائدے تو بے شمار ہیں مگر ہم ان میں سے چند بڑے فائدوں کا ذکر کرتے ہیں جن کو اُصول کہنا چاہیے اور درحقیقت آخرت کی سعادت کا حاصل ہونا اِن ہی پر موقوف ہے۔ اوّل : قلب میں صفائی اور بصیرت میں روشنی حاصل ہوتی ہے کیونکہ پیٹ بھر لینے سے بلادت( سستی اور طبیعت کاکند ہونا)پیدا ہوتی ہے اور قلب کی آنکھیں بند ہوجاتی ہیں اورجب ذکاوت جاتی رہی تو معرفت الٰہی ہرگز حاصل نہیں ہوسکتی۔ دوم : دل رقیق ہو جاتا ہے اور مناجات میں مزہ آتا ہے کیونکہ جب یہ توبرہ خالی ہوگا تو اپنے مالک کے سامنے سوال و اِلتجا اور دعا کرنے میں لطف آئے گااور خوف و خشیت(اللہ کا ڈر)وانکسار پیدا