ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2017 |
اكستان |
|
بہت دُور سے چل کر میرے پاس آیا ہے میں نے یہ پسند نہیں کیا کہ یہ بیچارا محروم واپس جائے، حضرت عبد اللہ نے پوچھا پھر اب تم دن بھر کیا کروگے ؟ غلام نے جواب دیا کہ اب میں اگلے دن تک بھوکا رہوں گا، حضرت عبداللہ فرماتے ہیں کہ میں نے دل میں یہ سوچا کہ مجھے سخاوت پر ملامت کی جاتی ہے حالانکہ یہ غلام مجھ سے بھی بڑا سخی ہے پھر غلام سے پوچھا کہ اس باغ کا مالک کون ہے ؟ اُس نے بتایا کہ مدینہ میں رہنے والے فلاں شخص ہیں چنانچہ عبد اللہ بن جعفر جب مدینہ تشریف لائے تو اس باغ کے مالک سے پورا باغ غلام سمیت خرید لیا اور پھر غلام کو بلا کر فرمایا کہ تو اللہ کے لیے آزاد ہے اور یہ باغ تیری ملکیت ہے۔ ١ (١٥) عبد اللہ بن جعفر کے صاحبزادے معاویہ سے پوچھا گیا کہ یہ بتلائیے کہ حضرت عبد اللہ بن جعفر کی سخاوت کہاں تک پہنچی ہوئی تھی ؟ تو اُنہوں نے جواب دیا کہ وہ اپنے مال میں سب لوگوں کو برابر کا شریک سمجھتے تھے، جو بھی سائل آتا اُسے بھرپور عطا فرماتے ، یہ نہ سوچتے کہ اِنہیں خود ضرورت ہے اس لیے دینے میں کمی کریں اور نہ یہ خیال کرتے تھے کہ وہ بعد میں محتاج ہوجائیں گے اس لیے ذخیرہ کرکے رکھیں۔ ٢سیّدنا حضرت حسین کی سخاوت : (١٦) ایک شخص بیان کرتے ہیں کہ میں بیس یاتیس اُونٹ لے کر مدینہ منورہ حاضر ہوا تاکہ لوگوں سے کھجوروں کا سوال کروں تو لوگوں نے مجھ سے کہا کہ عمرو بن عثمان اور حسین بن علی رضی اللہ عنہما اپنے اپنے باغوں میں ہیں اس لیے ان سے جاکر مانگو چنانچہ سب سے پہلے میں حضرت عمرو بن عثمان کے پاس پہنچا اُنہوں نے دو اُونٹ بھر کر کھجوریں عطا فرمائیں پھر کسی شخص نے مجھے مشورہ دیا کہ تم حضرت حسین کے پاس جاؤ چنانچہ میں اُن کے باغیچے میں پہنچا میں انہیں پہچانتا نہیں تھا ، دیکھا کہ ایک آدمی زمین پر بیٹھا ہے اور اُس کے ارد گرد غلام بیٹھے ہیں درمیان میں ایک بڑا پیالہ ہے جس میں موٹی روٹی اور گوشت ہے اور وہ سب مل کر کھا رہے ہیں، میں نے جا کر سلام کیا اور دل میں سوچا کہ یہ آدمی تو شاید کچھ ------------------------------١ الترغیب و الترہیب ص ٩٠ ٢ شعب الایمان ج ٤ ص ٤٣٧