ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2017 |
اكستان |
|
اس قسم کے لڑکوں اور لڑکیوں کے والدین یورپ کے طور طریق سب کچھ سکھاتے ہیں، کوٹ پتلون پہننا بتاتے ہیں، اپنے ہاتھ سے اُن کے گلوں میں ٹائی باندھتے ہیں، ناچ رنگ کے طریقے سمجھاتے ہیں، عورتیں بیاہ شادی کی رسمیں بتاتی ہیں، شرکیہ باتوں کی تعلیم دیتی ہیں اور اس طرح سے ماں باپ دونوں مل کر بچوں کا خون کردیتے ہیں اور طرّہ یہ کہ اِن کو دیکھ دیکھ کر خوش ہوتے ہیں کہ ہمارا بچہ اور بچی ماڈرن ہیں انگریز بن رہے ہیںترقی یافتہ لوگوں میں شمار ہونے لگے ہیں اور یہ نہیں سوچتے کہ ان کی آخرت برباد ہوگئی اعمالِ بد کے خوگر ہوگئے اسلام سے جاہل رہ گئے۔ احادیث میں ارشاد ہوتا ہے :عَنْ جَابِرٍ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ۖ لَأَنْ یُّؤَدِّبَ الرَّجُلُ وَلَدَہ خَیْر لَّہ مِنْ اَنْ یَّتَصَدَّقَ بِصَاعٍ (مشکوة شریف رقم الحدیث ٤٩٧٦) ''حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور فخر عالم ۖ نے ارشاد فرمایا کہ انسان اپنے بچہ کو اَدب سکھائے تو بلاشبہ یہ اِس سے بہتر ہے کہ ایک صاع غلہ وغیرہ صدقہ کرے۔''وَعَنْ اَیُّوْبَ بْنِ مُوْسٰی عَنْ اَبِیْہِ عَنْ جَدِّہ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ۖ قَالَ مَا نَحَلَ وَالِد وَلَدَہ مِنْ نَّحْلٍ اَفْضَلَ مِنْ اَدَبٍ حَسَنٍ۔(مشکوة شریف رقم الحدیث ٤٩٧٧) ''حضرت عمرو بن سعید سے روایت ہے کہ حضور سرور عالم ۖ نے ارشاد فرمایا کہ کسی باپ نے اپنے بچہ کو کوئی ایسی بخشش نہیں دی جو اچھے اَدب سے بڑھ کر ہو۔'' ''ادب'' بہت جامع کلمہ ہے، انسانی زندگی کے طور طریق کو اَدب کہا جاتا ہے، زندگی گزارنے میں حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں آتے ہیں، بندہ اللہ جل شانہ کے بارے میں جو عقائد رکھنے پر مامور ہے اور اللہ کے احکام پر چلنے کا جو ذمہ دار بنایا گیا ہے یہ وہ آداب ہیں جو بندے کو اللہ کے اور اپنے درمیان صحیح تعلق رکھنے کے لیے ضروری ہیں، فرائض اور واجبات، سنن اور مستحبات وہ اُمورہیں جن کے انجام دینے سے حقوق اللہ کی ادائیگی ہوتی ہے اور مخلوق کے ساتھ جو انسان کے تعلقات ہوتے ہیں اُن میں اِن احکام کو ملحوظ رکھنا پڑتا ہے جو مخلوق کی راحت رسانی سے متعلق ہیں ان میں بھی واجبات او