ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2017 |
اكستان |
|
اس تنگدلی کو پست حوصلگی، تنگ نظری، کوتاہ ظرفی سے بھی تعبیر کیا جا سکتا ہے اس کا پہلا عمل یہ ہوتا ہے کہ دوسرے کی ترقی برداشت نہیں ہوتی بلکہ اکثر یہ ہوتا ہے کہ مساوات بھی برداشت نہیں کی جاتی، وہ خود اگرچہ خوشحال ہے مگر دوسرے کی خوشحالی سے اسے جلن ہوتی ہے یعنی وہ یہ نہیں دیکھ سکتا کہ جس درجہ کی دکان اس کی چل رہی ہے اُس درجہ کی دکان دوسرے کی بھی چلے اس کو عربی میں ''حسد'' کہتے ہیں۔ تنگدلی اور کوتاہ ظرفی کا پہلا اثر'' حسد'' ہے جو بلا وجہ دوسرے سے کدورت پیدا کر دیتا ہے، دل کا یہ تکدر خیالات کو بھی خراب کر دیتا ہے اور دوسرے کے متعلق اچھے گمان کے بجائے بدگمانی رکھنے لگتا ہے ملک یا ملت کی خدمت دوسرے نے اس سے بہتر کی ہے مگر چونکہ اس کے دل میں کھوٹ ہے وہ اس کی قربانی اور قابلِ قدر خدمات کو کسی غرض پر محمول کرتا ہے، یہ بدگمانی اس کو قریب کرنے کی بجائے زیادہ بعید کر دیتی ہے، وہ پسند نہیں کرتا کہ اس وفادار خادمِ ملک و ملت کی تعریف کی جائے، اگر اس کو اس وفادار کی کسی کمزوری کا علم ہوتا ہے تو وہ اس کو پھیلاتا ہے، چونکہ خود اس کے دل میں کھوٹ ہے تو یہ ہمت نہیں ہوتی کہ اس کمزوری کی شکایت برملا خود اُس سے کرے بلکہ اُس کی پیٹھ پیچھے دوسروں سے اس کی کمزوری بیان کرتا ہے اور اس طرح ان کی نظروں سے اس کو گرانے کی کوشش کرتا ہے۔اگر کسی کمزوری کا اس کو علم نہیں ہوتا تو وہ اس کی ٹوہ اور جستجو رکھتا ہے کہ کوئی کمزوری اس کو معلوم ہوجائے ، اس میں وہ عمومًا کامیاب ہو جاتا ہے کیونکہ سماج اور معاشرہ کا بڑے سے بڑا انسان بھی کمزوری سے خالی نہیں ہوتا وہ اس بڑے انسان کی کمزوری کو اُچھالتا ہے مگر اس طرح وہ صرف اس انسان پر نہیں بلکہ پورے سماج پر ظلم کرتا ہے کہ اس کو قائد کی قیادت سے محروم کر دیتا ہے کیونکہ سوسائٹی جس کو اپنا رہنما مانتی تھی جب اس کی کمزوری اس کے سامنے آئے گی تو لا محالہ اس کی عظمت جماعت اور سوسائٹی کی نظر میں کم ہوجائے گی اور اس رہنما کی بات میں وزن نہیں رہے گا تو اس کی رہنمائی اور قیادت میں زوال آجائے گا لیکن یہ زوال صرف اس کے حق میں نہیں ہوگا بلکہ یہ پوری سوسائٹی زوال پذیر ہوجائے گی کیونکہ وہ قائد سے محروم ہوجائے گی اور اس طرح بجائے منظم و متحد ہونے کے وہ منتشر ہوجائے گی، پس ایک دل کی بیماری سے سارے دل بیمار ہوجائیں گے۔