ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2017 |
اكستان |
|
جواب : اس سوال کے مندرجہ ذیل جواب ہو سکتے ہیں : (١) دوسری نصوص کے پیش ِ نظر اِس حدیث میںاجتناب عن الکبائر کی قید ہے لہٰذا جو کبائر سے بچتا ہوگا وہی عذابِ قبر سے بچے گا۔ (٢) بعض بدکار بلا حساب بھی جنت میں جائیں گے جن کے لیے یہ سعادت مقتدر ہے اِن ایام میں صرف اُن ہی کی موت واقع ہوتی ہے۔ (٣) ان ایام میں موت سے صرف عذابِ قبر معاف ہے عذابِ آخرت نہیں اور حدیث کا مطلب یہ ہے کہ ان ایام کی برکت کے سوا کسی اور عمل کی بدولت عذابِ قبر سے بچ گیا تو آئندہ منازل سہل ہوں گی۔ (3) سوال : ان ایام میں تو کافر بھی مرتے ہیں توکیا وہ بھی عذابِ قبر سے محفوظ ہوجاتے ہیں ؟ جواب : ان ایام میں اگر کافر مر جائے تو اُسے صرف ان ایام میں عذابِ قبر نہیں ہوتا ان کے بعد شروع ہو جاتا ہے۔ (4) سوال : اگر کوئی فوت تو جمعرات کے دن میں ہوا اور اُس کی تدفین جمعہ یا جمعہ کے دن عمل میں آئی تو کیا اُس سے بھی عذابِ قبر مرتفع ہوجائے گا ؟ جواب : یہ وعدہ جمعہ کے دن اور جمعہ کی رات میں موت پر ہے دفن پر نہیں البتہ عذابِ قبر چونکہ دفن کے بعد شروع ہوتا ہے اور مسلم میت پر شب ِ جمعہ سے حشر تک عذاب مرتفع ہوجاتا ہے اس لیے ایسا شخص عذابِ قبر سے محفوظ رہے گا۔ ٭ ابن البزار رحمہ اللہ فرماتے ہیں :اَلسُّوَالُ فِیْمَا یَسْتَقِرُّ فِیْہِ الْمَیِّتُ حَتّٰی لَوْ اَکَلَہ سَبْع فَالسُّوَالُ فِیْ بَطْنِہ فَاِنْ جُعِلَ فِیْ تَابُوْتٍ اَیَّامًا لِنَقْلِہ اِلٰی مَکَانٍ آخَرَ لَا یُسْئَلُ مَا لَمْ یُدْفَنْ ۔ ''میت سے سوال و جواب اُسی جگہ ہوتا ہے جو جگہ میت کا مستقر بنتی ہے یہی وجہ ہے