ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2017 |
اكستان |
|
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہمافرماتے ہیں کہ'' اگر تم نمازیں پڑھتے پڑھتے کمان کی طرح جھک جائو اور روزے رکھتے رکھتے تانت کی طرح دبلے بھی ہو جائوتو بغیر تقوی اختیار کیے اور مالِ حرام سے بچے کچھ بھی قبول نہ ہوگا۔'' رزقِ حرام کھا کر عبادت کرنا ایسا بیکار ہے جیساگوبر پر مکان تعمیر کرنا یادرکھو کہ رزقِ حلال کو قلب کی نورانیت میں بڑا اَثر ہے لہٰذا مالِ حرام سے بچنا اور تقوی اختیار کرنا نہایت ضروری ہے، تقوی کے چار درجے ہیں : ٭ پہلادرجہ : جن چیزوں یا جس مال کی حرمت پر علمائے دین اور فقہائے شریعت کافتوی ہے اُن کا استعمال نہ کرو کیونکہ اُن کے استعمال سے آدمی فاسق بن جاتا ہے اور ثقاہت (دین میں پختگی) جاتی رہتی ہے ،یہ تو عام مومنین کا تقوی کہلاتا ہے۔ ٭ دوسرا درجہ : صلحا ء کا تقوی ہے یعنی مشتبہ چیز سے بھی پرہیز کرنا کیونکہ علمائے شریعت نے ظاہری حالت دیکھ کر اگر چہ مشتبہ کو حلال کہہ دیا ہے مگر چونکہ اِس میں حرمت کا احتمال ہے اور اسی وجہ سے وہ شے مشتبہ کہلاتی ہے لہٰذا صلحاء اس کو بھی استعمال نہیں کرتے، دیکھو جناب رسول اللہ ۖ فرماتے ہیں کہ'' جس میں شبہ ہواُس کو چھوڑ دواور اُس کو اختیار کرو جس میں کچھ بھی شبہ نہ ہو۔''جائز زینت اور مباح لذت سے پرہیز کرنے کا راز : ٭ تیسرا درجہ : اتقیاء کا تقوی ہے جناب رسول اللہ ۖ فرماتے ہیں کہ'' مسلمان جب تک خطرہ والی چیزوں میں مبتلا ہونے کے اندیشے سے بے خطرہ چیزوں کو بھی ترک نہ کرے گا اُس وقت تک اتقیاء کے درجے کو ہرگز نہ پہنچے گا۔'' حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ''حرام کے مرتکب ہو جانے کے اندیشہ سے ہم حلال کے بھی دس حصوں میں سے نو حصے ترک کردیتے ہیں۔'' اسی بنا پر اللہ کے پرہیز گار بندے جب سوروپیہ کے مستحق ہوتے ہیں تو ایک کم سو لیتے ہیںاور جس وقت دوسرے کا حق دیتے ہیں تو ایک حبہ ١ زیادہ ------------------------------١ یہ زیادہ دینا سود نہیں ہے اس لیے کہ شرط قرار نہیں دی گئی تھی بلکہ تبرع اور احسان ہے کہ بلا استحقاق دوسرے کے ساتھ سلوک کیا۔