ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2017 |
اكستان |
باقی ماندہ عمر کی آسائش کے خیال سے دوائے تلخ پی لی یعنی دین مہر کی معافی گوارابھی کر لی تو اِس کا نام رضائے قلب ہوا نہ کہ رضائے نفس اور دین مہر کے حلال ہونے میں اعتبار رضائے نفس کا ہے جیسا کہ اُوپر کی آیت سے معلوم ہوا نہ کہ رضائے قلب کا پس اگر اس رضا کے حیلہ سے حکومت و سلطنت دنیوی میں کوئی شخص تقاضا کرنے والا نہیں رہا تو کیا اللہ کے سامنے بھی اس کی بدولت سرخرو ہو جائو گے ؟ بتلائو احکم الحاکمین (سب حاکموں سے بڑا حاکم)کو کیا جواب دو گے جبکہ رضائے قلب اور رضائے نفس سے بحث پیش ہو اور پوچھا جائے کہ ہماری اجازت کے خلاف حیلہ جوئی سے ایک بے کس اور ضعیفہ کا حق کیوں ہضم کیا ؟مجمع میں سوال کرنے کی قباحت اور ظاہری دینداری سے دنیا کمانے کی برائی : اسی طرح کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلائو کیونکہ بھیک مانگنا بری بات ہے اور اگر سخت ضرورت کے وقت سوال کرنے کی نوبت آئے تو اِس کا ضرور خیال رکھو کہ مجمع میں سوال نہ کرو کیونکہ اکثرایسی حالت میں دینے والا جو کچھ بھی تم کو دے گا وہ اپنے مجمع میں ذلت و رُسوائی اور ہم چشموں میں سُبکی کے خیال سے دے گا اور اس کو بخوشی خاطر دینا نہیں کہتے،پس ایسا دیا ہوا مال استعمال کے قابل نہیں ہے کیونکہ کسی کے بدن پر مارکرلینا یا کسی کے دل پر شرم اور دبائو کا کوڑا مار کر لینا دونوں برابر ہیں۔ نیز اپنے دین کو ذریعہ کسب نہ بنائو مثلاً صلحا، فقرا کی سی صورت اس نیت سے نہ بنائو کہ ہمیں بزرگ سمجھ کر لوگ دیں گے حالانکہ تم بالکل کورے ہو اور تمہارا دل گندگی سے آلودہ ہے،یاد رکھو کہ دوسرے کادیا ہوا مال تمہیں اُس وقت حلال ہے جبکہ تمہاری چھپی ہوئی حالت ایسی نہ ہو کہ اگر دینے والا اُس سے آگاہ ہو جائے تو ہر گز نہ دے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اگر تم نے صورت بزرگوں کی سی بنائی اور تمہارے دل میں خواہشاتِ نفسانی کا ہجوم ہے اور ظاہر ہے کہ دینے والے نے جو کچھ تم کو دیا ہے وہ صرف تمہاری صورت دیکھ کر دیا ہے کہ اُس کو تمہاری باطنی گندگی کی بالکل خبر نہیں ہے تو اگرچہ علمائے شریعت جو ظاہری انتظام کے متکفل (ذمہ دار)ہیں اس مال کو حلال بتلائیں گے مگر صاحب ِبصیرت ضرور حرام کہے گا اور اِس کو استعمال میں لانے کی ہرگز اجازت نہ دے گا۔