ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2017 |
اكستان |
|
بعض لوگ عید کے دُوسرے دن ہی سے اِن روزوں کے رکھنے کو ضروری خیال کرتے ہیں یہ غلط ہے فقہائے کرام کا کہنا ہے کہ شوال میں جب بھی یہ روزے رکھ لیے جائیں جائز ہے اور اِن کا اَجر وثواب ملتا ہے ۔ یاد رہے کہ جس کے رمضان کے کچھ روزے رہ گئے ہوں پہلے وہ اُن کو رکھے بعد میں شوال کے روزے رکھے، اگر کوئی شوال کے روزوں میں قضا ء ِ رمضان کی نیت کرے گا تو اُسے مذکورہ ثواب حاصل نہیں ہو گا کیونکہ جب کوئی شوال کے روزوں میں قضائِ رمضان کی نیت کرے گا تو وہ تو رمضان کے روزے پورے کرے گا، اگر مزید روزے رکھتا ہے تو رمضان اور شوال کے روزے مِل کر مذکورہ ثواب کے حصول کا ذریعہ بنیں گے ورنہ نہیں مثلاً کسی کے رمضان کے چھ روزے قضا ہو گئے اب وہ شوال میں چھ روزے قضائِ رمضان کے رکھتا ہے تو اِس طرح اُس کے رمضان کے تیس روزے پورے ہوئے اب اگر چھ روزے مزید رکھے گا تو چھتیس بنیں گے اور تین سو ساٹھ روزوں کا ثواب ہو گا ورنہ نہیں۔ ..............بقیہ : تبلیغ دین ..............بازار کی چیزوں میں اصل حلت ہے : رسول اللہ ۖ اور تمام صحابہ سفر میں بازار سے تمام ضروریات کی چیزیں کھاتے اور خریدتے تھے حالانکہ یہ بھی جانتے تھے کہ سود اور لوٹ اور مالِ غنیمت میں خیانت کیے ہوئے مال بھی بازاروں ہی میں فروخت ہوتے ہیں مگر ان توہمات کی طرف کبھی توجہ نہیں فرمائی بلکہ غالب اور کثرت کی بنا پر بازار میں فروخت ہونے والے سارے مال کو تفتیش وتحقیق کے بغیر حلال سمجھا، اسی طرح تم بھی بازار کی چیزوں کو حرام نہ سمجھو البتہ اگر ناجائز اور حرام طریقہ سے حاصل کی ہوئی چیزیں کسی شہر یا بازار میں بکثرت فروخت ہونے لگیں تو اُس وقت تفتیش و تحقیق حال کے بغیر خریدنا اور استعمال میں لانا بے شک جائز نہیں ہے۔ (جاری ہے)