ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2017 |
اكستان |
|
اور مسلمانوں کے ساتھ حسن ِظن (اچھا گمان) رکھو اور یہ سمجھ کر کہ مسلمانوں ے پاس جو کچھ مال ہے حلال اور پاک ہی کی کمائی کا ہوگا اُس کی دعوت بھی قبول کر لیا کرو خصوصًا جبکہ مسلمان صالح اور دیندار ہو، ہاں البتہ ظالم بادشاہ یا سود خور یا شراب بیچنے والے شخص کا مال جب تک یہ نہ پوچھ لو کہ کس حلال طریقہ سے کمایا ہے حلال نہ سمجھو پس اگر تحقیق کے بعد معلوم ہوجاوے کہ سود یا ظلم کی کمائی اور شراب کی قیمت نہیں ہے تو اس کالینا بھی حرام نہیں ہے اور اگر کسی کے پاس غالب حصہ حلال آمدنی کا ہے اور کم حصہ حرام کا تو اُس کا کھانا بھی حلال ہے البتہ اگر نہ کھاؤ تو تقوی ہے۔ حضرت شیخ ابن المبارک رحمة اللہ علیہ کے کارندہ متعینہ بصرہ نے بذریعہ خط کے ان سے دریافت کیا تھا کہ جو شخص ظالم بادشاہ سے دادو دہش (لین دین) رکھتا ہو مجھے اُس سے لین دین کا معاملہ کرنا جائز ہے یا نہیں ؟ تو شیخ نے لکھا کہ ''اگر اس شخص کا اس کے علاوہ اور بھی کوئی ذریعہ کسب ہو تو اُس سے معاملہ کرنا جائز ہے ورنہ ناجائز۔'' غرض دنیا میں چھ قسم کے آدمی ہیں اور ہر ایک کے ساتھ معاملہ کا جدا حکم ہے جس کو ہم نمبر وار بیان کرتے ہیں :مال کی حالت و حرمت کی شناخت : پہلی قسم : وہ آدمی جن کی صورت ِکسب اور دینداری اور بددینی کا حال کچھ بھی معلوم نہیں ہے، ایسے لوگوں کا دیا ہوا مال حلال ہے اور اس سے پرہیز کرنا ضروری نہیں ہے البتہ احتیاط کے خیال سے نہ کھایا جائے تو تقوی میں داخل ہے۔ دوسری قسم : وہ صلحاء جن کی دینداری کھلی ہوئی اور کمائی کا مشروع طریقہ ظاہر ہے اُن کے مال میں شبہ کرنا وسوسہ شیطانی ہے بلکہ اگر اُن کو اس کے پرہیز کرنے سے رنج ہوتو ایسا تقوی بھی حرام اور معصیت ہے۔ تیسری قسم : وہ لوگ جن کا سارا مال یا نصف سے زیادہ مال ظلمًا یا سود یا شراب کی بیع وشرا سے حاصل ہوا ہے اُن کا دیا ہوا مال یقینا حرام ہے اور اس سے پرہیز کرناضروری ہے۔