ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2017 |
اكستان |
|
حج کی عظمت وفضیلت ( شیخ الحدیث حضرت مولانا محمدزکریاصاحب کاندھلوی رحمة اللہ علیہ )عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہ ۖ مَنْ حَجَّ لِلّٰہِ فَلَمْ یَرْفُثْ وَلَمْ ےَفْسُقْ رَجَعَ کَیَوْمٍ وَلَدَتْہُ اُمُّہ ۔ (مشکٰوة شریف کتاب المناسک رقم الحدیث ٢٥٠٧) ''حضور ۖ کا ارشاد ہے کہ جو شخص اللہ کے لیے حج کرے اِس طرح کہ اُس حج میں نہ رفث ہو (یعنی فحش بات ) اورنہ فسق ہو (یعنی حکم عدولی)وہ حج سے ایسا واپس ہوتا ہے جیسا اُس دن تھا جس دن ماں کے پیٹ سے نکلا تھا۔ '' جب بچہ پیدا ہوتا ہے وہ معصوم ہوتا ہے کہ اُس پر کوئی گناہ، کوئی لغزش ، کسی قسم کی داروگیر کچھ نہیں ہوتی، یہی اثر ہے اُس حج کا جو اللہ کے واسطے کیا جائے ۔علماء کے نزدیک اس قسم کی احادیث سے صغیرہ گناہ مراد ہوا کرتے ہیں، اگرچہ حج کے بارے میں جو روایات بکثرت وارد ہوئی ہیں اُن کی وجہ سے بعض علماء کی یہ تحقیق ہے کہ حج سے صغائر کبائر سب گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ اس حدیث پاک میں تین مضمون ذکر فرمائے ہیں : (١) اوّل یہ کہ اللہ کے واسطے حج کیا جائے، یعنی اس میں کوئی دُنیوی غرض ، شہرت ، ریا وغیرہ شامل نہ ہو، بہت سے لوگ شہرت اور عزت کی وجہ سے حج کرتے ہیں ، وہ اتنا حرج اورخرچ ثواب کے اعتبار سے بیکار ضائع کرتے ہیں ، اگرچہ حج فرض اِس طرح بھی ادا ہو جائے گا لیکن محض اللہ کی رضا کی نیت ہو تو فرض ادا ہونے کے ساتھ کس قدر ثواب ملے، اتنی بڑی دولت کو محض چند لوگوں میں عزت کی نیت سے ضائع کردینا کس قدر نقصان اور خسارہ کی بات ہے۔ ایک حدیث میں آیا ہے کہ قیامت کے قریب میری اُمت کے امیر لوگ تو حج محض سیروتفریح کے اِرادہ سے کریں گے (گویا لندن وپیرس کی تفریح نہ کی، حجاز کی تفریح کرلی)اور میری اُمت کا متوسط طبقہ تجارت کی غرض سے حج کرے گا کہ تجارتی مال کچھ اِدھر سے لے گئے کچھ اُدھر سے لے آئے،