ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2017 |
اكستان |
|
قلب سے فتوی لینے کی ضرورت : دوسری بات جس کا خیال رکھنا ضروری ہے یہ ہے کہ علماء کے فتوی پر اکتفا نہ کیا کرو بلکہ اپنے دل سے بھی پوچھا کرو کہ اِس معاملہ میں دل کیا کہتا ہے ؟ جناب رسول اللہ ۖ فرماتے ہیںکہ ''تم اپنے دلوں سے بھی فتوے لیاکرو اگرچہ مفتی فتوے دے چکیں''بات یہ ہے کہ گناہ مسلمان کے دل میں ضرورچبھا کرتا ہے کیونکہ جو چیز ضرر پہنچانے والی ہوگی وہ دل میں کھٹکے بغیر نہ رہے گی، پس جو شے درحقیقت حرام ہوگی یا جو کام فی الواقع گناہ ہو گا اُس کو تمہارا دل بے کھٹکے ہرگز قبول نہ کرے گا اور ہر چیز کی اصلیت اس طرح پردل کے فتوے سے معلوم ہو جایا کرے گی۔نفس کو تشدد سے بچانا ہے : نفس پر زیادہ تشدد بھی نہ کرو مثلاً کہنے لگو کہ ایسا مال کہاں ہے جو مشتبہ بھی نہ ہو اور کسی ظالم یا فاسق کے ہاتھ میں نہ ہو کر آیا ہو ؟ اور جب ایسا مال نہیں مل سکتا تو یا تو انسان جوگی بن کر گھاس پات کھانے پر قناعت کرے اور ایسا نہ کر سکے تو بے باک ہو کر جو چاہے کھائے پیے ایسا خیال کرنا گمراہی ہے، بات یہ ہے کہ حلال بھی ظاہر ہے اور حرام بھی ظاہر ہے اور اُن کے بین بین (بیچ بیچ) کی چیزیں مشتبہ کہلاتی ہیں مگر تم کو صرف اتنی تکلیف دی گئی ہے کہ جو مال شرعًا حلال ہے اور اُس کے حرام اور نجس ہونے کا کوئی ظاہری سبب تم کو معلوم نہیں ہے اُس کو حلال سمجھ کر کھاؤ پیو۔ جنابِ رسول اللہ ۖ نے ایک مرتبہ مشرک آدمی کے مشکیزہ سے اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے عیسائی عورت کے گھڑے سے وضو کیا اور پیاس ہوتی تو پی بھی لیتے،اس سے معلوم ہو گیا کہ خوامخواہ وہم کرنا کہ اللہ جانے یہ پانی پاک ہے یا ناپاک، جائز نہیں ہے۔عارض کی تحقیق نہ ہونے پر اصل پر عمل کرنا چاہیے : جب پانی کے ناپاک ہونے کی بظاہر کوئی وجہ تم کو معلوم نہیں ہے تو اس کو پاک ہی سمجھنا چاہیے اسی طرح جو حلال شے کسی ایسے آدمی کے ہاتھ میں پاؤ جس کا حال تم کو معلوم نہ ہو تو اُس کو پاک سمجھو