ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2017 |
اكستان |
تحصیل ِزکوة کے لیے نہیں آئے گا کیونکہ جتنی بات بندوں کے دیکھنے کے متعلق تھی یعنی مالکانہ قبضہ وہ ختم سال سے قبل بیوی کے نام منتقل ہوجانے کی وجہ سے جاتا رہا مگر تمہیں چونکہ معاملہ اپنے پروردگار سے رکھنا ہے اوروہ دلوں کے حالات سے واقف ہے اس لیے یہ مکروفریب آخرت میں کام نہ آئے گا تمہیں معلوم ہو چکا ہے کہ زکوة سے مقصود بخل کی عادت کا دُور کرنا ہے اور جب زکوة تک سے بچنے کے حیلے کرنے لگو گے تو بخل کہاں دُور ہوا بلکہ بخل کو تو سرچڑھا کر اپنا اِمام اور پیشوا بنا لیا کیونکہ اُس کا یہاں تک کہنا مانا کہ اِس بخل کو نجات دہندہ اور اللہ کے سامنے سرخرو کر دینے والاسمجھ بیٹھے تو اِس صورت میں زکوة کا مقصود بالکل حاصل نہیں ہوا بلکہ اللہ تعالیٰ نے جو مصلحت اس میں رکھی تھی اُس کی جانب توجہ بھی نہیں کی اور برعکس معاملہ کیا کہ بخل کو دُور کرنے کی جگہ اس میںترقی کی مثلاً مسلمان اپنی بیوی کو اِس غرض سے تکلیف میں رکھتے ہیں کہ وہ تنگ آکر اپنا مہر معاف کر دے اور جب وہ بیچاری مصیبت سے گھبرا کر زبان سے معاف کرنے کا لفظ نکال دیتی ہے تو مطمئن ہو جاتے ہیں اور اِس کو حلال سمجھتے ہیں بھلا ایسا مال شوہر کو کیوں کر حلال ہوسکتا ہے، اللہ تعالیٰ نے ( فَاِنْ طِبْنَ لَکُمْ)میں خود فرمایا ہے کہ ہاں وہ مہر جو عورتیں برضائے نفس معاف کر دے اور جب وہ بے چاری مصیبت سے گھبر ا کر زبان سے معاف کردیں توتمہارے لیے حلال ہے اب تم ہی بتائو کہ جس مہر کی معافی برے برتائو اور ایذارسانی سے ہوئی ہو کیا وہ بخوشی خاطر سمجھی جائے گی۔رضائے نفس و رضائے قلب کا لطیف فرق : یادرکھو کہ رضائے قلب دوسری شے ہے اور رضائے نفس دوسری چیز ہے مثلاً پچھنے لگوانے، تلخ دوا پینے،فصد کھلوانے،پھوڑے پھنسی میں شگاف لگوانا یہ سب تکلیفیں ایسی ہیں کہ اِن کو قلب تو پسند کرتا ہے مگر نفس پسند نہیں کرتا اس لیے کہ نفس تو اُسی بات کو پسند کرتا ہے جس میں اُس وقت لذت حاصل ہو البتہ قلب اُس چیز کو پسند کرتا ہے جس میں اِس وقت اگرچہ تکلیف ہو مگر آئندہ نفع کی اُمید ہو کیونکہ نفس کا یہ کام نہیں ہے کہ بعد میں آنے والی راحت کے خیال سے اِس وقت تکلیف کو گوارا کرے پس اگر بیوی نے تکلیف سے تنگ آکر اور خاوند کی ایذائوں سے گھبرا کر اپنی آئندہ مصلحت اور