ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2017 |
اكستان |
|
شیخ نے قبول نہ کیا اور یہ کہہ کر اُس کو واپس کر دیا کہ کھانا اگرچہ حلال ہے لیکن طباق نجس ہے، طباق سے مراد جیل خانے کے داروغہ کا ہاتھ ہے کہ وہ ظالم ہے اور ظالم کا ہاتھ پڑنے کی وجہ سے کھانا اس قابل نہ رہا کہ میں اِس کو کھالوں۔ حضرت بشر حافی رحمة اللہ علیہ شہروں کی اُن نہروں کا پانی بھی نہ پیتے تھے جن کو غیر محتاط اور ظلم پسند بادشاہوں نے کھدوایا تھا۔ ایک بزرگ کا غلام کسی فاسق شخص کے گھر سے چراغ روشن کر لایا تو اُنہوں نے بجھا دیا اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے نافرمان بندے کے چراغ سے روشن کیے ہوئے چراغ کی روشنی نفع اُٹھانے کے لائق نہیں ہے۔ غرض(قُلِ اللّٰہُ ثُمَّ ذَرْھُمْ )کے پورے عامل صرف یہی لوگ تھے کہ ''کہو اللہ ،اُس کے بعد سب کو چھوڑ دو''انہوں نے کبھی ایسی چیز کا استعمال نہیں کیا جو اللہ واسطے نہ تھی، یہ درجہ حاصل کرنا تو چونکہ آسان نہیں ہے اس لیے صرف ثقہ(بھروسہ کے)مسلمانوں کا تقوی تو ضرور حاصل کرو کہ اُن چیزوں کے پاس نہ پھٹکو جن کی حرمت پر علمائے دین کا فتوی ہے۔تمام حیلوں کا صحیح مطلب اور اُن سے احتیاط کی ضرورت : اس کے ساتھ دو باتوں کا اور بھی خیال رکھو : پہلی بات تو یہ ہے کہ بعض فقہاء نے مسائلِ شرعیہ کے متعلق جو حیلے بیان کیے ہیںاُن کی جانب التفات نہ کرو مثلاً یہ حیلہ کہ سال ختم ہونے سے پہلے اپنا تمام مال اپنی بیوی کے نام اور بیوی کا سارا مال اپنے نام منتقل کر لیا کہ چونکہ مملوکہ مال سال بھر اپنی مِلک میں نہیں رہا اس لیے زکوة واجب نہیں ہوئی اس قسم کا حیلہ کبھی مت اختیار کرنا۔ بات یہ ہے کہ فقہائے شریعت کا کام چونکہ دنیوی انتظام و سیاست ہے اس لیے اس حیلہ کی صورت میں زکوة ساقط ہونے کا فتوی دینے سے اُن کی مراد یہ ہے کہ دنیا کا منتظم اور حاکم وقت سلطان اُسی مسلمان سے زکوة کا مطالبہ کرے گا جس کا مال پورے سال بھر تک اس کے قبضہ مالکانہ میں دیکھ لے گا اور حیلہ کرنے والے متمول (مالدار)مسلمان کے پاس سلطانی محصل