ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2017 |
اكستان |
|
اس تشریح کے بعد پھر ہم یہی کہتے ہیں کہ اپنے دل سے بھی فتوی لے لو اور جس مال سے دل کھٹکے اُس کا ہرگز استعمال نہ کرو البتہ یہ ضرور دیکھ لو کہ دل کے فتوی پر عمل کرنے اور تقوی اختیار کرنے سے اُس شخص کو رنج تو نہ ہوگا۔جس تفتیش سے مسلمانوں کو ایذا پہنچے وہ حرام ہے : پس اگر رنج کااندیشہ ہو تو ایسا تقوی کرنا بھی جائز نہیں ہے مثلاً کسی نامعلوم الحال مسلمان نے کوئی چیز ہدیہ تمہیں دی یاتمہاری دعوت کی اور تم نے تقوی کی بنا پر اُس کے مال کی تفتیش شروع کر دی تو ظاہر ہے کہ یاتو خود اُسی سے پوچھو گے یا اُس سے خفیہ دوسرے لوگوں سے تحقیق کرو گے اور یہ بھی ظاہر ہے کہ اگر اُس سے پوچھا تو اُس کو ضرور رنج ہوگا یااگر دوسروں سے پوچھا اور اُس کو خبر ہوگئی تو مسلمان کو رنج پہنچانے کے علاوہ مسلمان کے ساتھ بدگمانی رکھنے اور بعض دفعہ غیبت اور تہمت میں مبتلا ہونے کا بھی اندیشہ ہے اور یہ سب حرام ہیں اور تقوی کا چھوڑنا حرام نہیں ہے پس ایسے موقع پر اس مسلمان کا دل خوش کرنا واجب ہے۔ دیکھوجناب رسول اللہ ۖ نے اپنی باندی حضرت بریرہ رضی اللہ عنہاکا وہ کھانا جو کسی مسلمان نے ان کو صدقہ دیا تھا بے تامل کھا لیا اور صدقہ دینے والے کے مال اور حال کا تجسس نہ فرمایا البتہ جب آپ مدینے میں تشریف لائے توشروع شروع میں جو چیز آپ کی نذر کی گئی تو آپ نے یہ ضرور پوچھ لیا کہ صدقہ ہے یا ہدیہ ؟ اور یہ بھی صرف اس وجہ سے کہ صدقہ کا مال آپ کے لیے حلال نہ تھا اور اس سوال میں اس کو رنج یا ایذا بھی نہیں ہوئی تھی کیونکہ صدقہ اور ہدیہ دونوں کی ایک ہی صورت ہے صرف دینے والے کی نیت اور محل و مصرف کا فرق ہوتا ہے باقی اس سے زیادہ تفتیش نہیں فرمائی کہ کس طرح اور کہاں سے حاصل کیا ؟ آپ کی عادت تھی کہ جو مسلمان آپ کی ضیافت (دعوت) کرتا آپ بلاتامل قبول فرمالیتے اور کہیں منقول نہیں ہے کہ آپ نے اس سے سوال کیا ہو کہ تمہارا مال کس ذریعہ سے حاصل ہوا ہے البتہ شاذونادر کسی غالب شبہ کے موقع پر تحقیق ِحال فرمالی ہے۔ (باقی صفحہ ٣٥ )