ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2017 |
اكستان |
|
دیتے ہیں اور جب اپنا حق لیتے ہیں تو ایک حبہ کم لیتے ہیں ۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمة اللہ علیہ کا ذکر ہے کہ بیت المال کا مشک ان کے پاس آتا تو اپنی ناک بند کر لیتے اور فرمایا کرتے تھے کہ اِس کی خوشبو کو سونگھنا بھی تو اِس کا استعمال ہی کرنا ہے لہٰذا بیت المال کے مشک کی خوشبو کو میں سونگھنا نہیں چاہتا۔ مزہ دار حلال چیزوں کے کھانے اور جائز زینت اور آراستگی سے پرہیز کرنے کی بھی یہی وجہ ہے کہ زبان کو مزہ لگنا اچھا نہیں ہے کیونکہ آج حلال کا مزہ پڑا ہے تو کل حرام کی لذت حاصل کرنے کا شوق ہو جائے گا۔ قرآن شریف میں کافروں کی کثرتِ مال ومتاع اور دنیاداروں کے جاہ و حشم کی جانب نظر کرنے کی جو ممانعت آئی ہے وہ بھی اسی لیے آئی ہے کہ اِس چمک دمک سے ایمان کی شیرینی کم ہوجائے گی اس لیے کہ دنیا کے مال و متاع کی رغبت اور محبت سے قلب میں ایمان کی محبت نہیں رہا کرتی، ایک بزرگ کا قول ہے کہ جس کا کپڑا پتلا اُس کا ایمان بھی پتلا ،غرض اتقیاء کے نزدیک وہی مال حلال اور قابلِ استعمال ہے جس میں نہ بالفعل کسی قسم کا شبہ ہو اور نہ آئندہ کسی آفت کا خطرہ یا احتمال ہو۔صدیقین کا تقوی اور احتیاط کے قصے : ٭ چوتھا درجہ : صدقین کا تقوی ہے یعنی جس چیز کے کھانے سے عبادات اور طاعت پر قوت حاصل نہ ہو اُس سے پرہیز کرنا مثلاً ایک بزرگ کا قصہ ہے کہ اُنہوں نے دواپی تو اُن کی بیوی نے کہا کہ چند قدم ٹہل لیجئے انہوں نے جواب دیا کہ فضول و عبث حرکت جائز نہیں ہے میں اپنے نفس سے تمام حرکات وسکنات کا محاسبہ (حساب لینا)کیا کرتا ہوں بھلا اس چہل قدمی کو کس حساب میں شمار کروں گا، اسی طرح جس شے کے اپنے نفس تک پہنچنے کے وسائل میں سے کسی ایک سبب کے اندر بھی کچھ معصیت خداوندی کو دخل ہواُس سے بھی پرہیز کرنا اس درجہ میں ضروری ہے۔ حضرت ذوالنون مصری رحمة اللہ علیہ ایک مرتبہ جیل خانے میں قید تھے کسی نیک بخت عورت نے ان کو بھوکا پاکر اپنی حلال معاش میں سے کچھ کھانا پکایا اور داروغہ جیل کے ہاتھ ان تک پہنچایا مگر