ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2017 |
اكستان |
|
(٣) تیسری چیز جو اِس حدیث پاک میں ذکر کی گئی وہ'' فسوق'' یعنی حکم عدولی نہ ہونا ہے، یہ بھی قرآنِ پاک کی آیت مذکورہ میں گزر چکا ہے ۔ علماء نے لکھا ہے کہ یہ بھی جامع کلمہ ہے جو اللہ جل شانہ کی ہر قسم کی نافرمانی کو شامل ہے، اس میں جھگڑا کرنا بھی داخل ہے کہ یہ بھی حکم عدولی ہے۔ نبی کریم ۖ نے ایک حدیث پاک میں ارشاد فرمایا کہ حج کی خوبی نرم کلام کرنا اور لوگوں کو کھانا کھلانا ہے لہٰذا کسی سے سختی سے گفتگو کرنا ، نرم کلام کے منافی ہے اس لیے ضروری ہے کہ آدمی اپنے ساتھیوں پر بار بار اعتراض نہ کیا کرے، بدئووں سے سختی سے پیش نہ آئے، ہر شخص کے ساتھ تواضع سے اور خوش خلقی سے پیش آئے ۔ علماء نے لکھا ہے کہ خوش خلقی یہ نہیں ہے کہ دوسرے کو تکلیف نہ پہنچائے بلکہ خوش خلقی یہ ہے کہ دوسرے کی اذیت کو برداشت کرے، سفرکے معنی لغت میں ظاہر کرنے کے ہیں ، علماء نے لکھا ہے کہ سفر کو سفر اِسی وجہ سے کہاجاتا ہے کہ اس میں آدمی کے اخلاق ظاہر ہوتے ہیں۔ حضرت عمر نے ایک شخص سے دریافت کیا کہ تم فلاں کو جانتے ہو کہ کیسا آدمی ہے ؟ اُنہوں نے عرض کیا جی جانتا ہوں، حضرت عمر نے دریافت کیا کہ تم نے کبھی کوئی سفر اُس کے ساتھ کیا ہے ؟ اُنہوں نے عرض کیا کہ سفر تو نہیں کیا، حضرت عمرنے فرمایا کہ پھرتم اُس کو نہیں جانتے۔ ایک حدیث میں ہے کہ حضرت عمر کے سامنے ایک صاحب نے کسی کی تعریف کی کہ بہت اچھے آدمی ہیں، حضرت عمر نے دریافت فرمایا کہ تم نے اُن کے ساتھ کوئی سفر کیا ہے ؟ اُنہوں نے عرض کیا کہ سفر تو نہیں کیا پھر حضرت عمر نے دریافت کیا تمہارا اُن کے ساتھ کوئی معاملہ پڑا ہے ؟ اُنہوں نے عرض کیا کہ معاملہ بھی نہیں پڑا تو حضرت عمر نے فرمایا کہ پھر تمہیں اُن کے حال کی کیا خبر ؟ حق یہ ہے کہ آدمی کا حال ایسی ہی چیزوں سے ظاہرہوتا ہے ، ویسے دیکھنے میں تو سب ہی اچھے معلوم ہوتے ہیں مگر سفر میں اکثر کشیدگی ہو ہی جاتی ہے اس لیے قرآنِ پاک میں حج کے ساتھ( وَلَا جِدَالَ ) کو خاص طورسے ذکر کیاہے۔عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہ ۖ ......اَلْحَجُّ الْمَبْرُوْرُ لَیْسَ لَہُ جَزَائ اِلَّا الْجَنَّةَ۔ (مشکٰوة شریف کتاب المناسک رقم الحدیث ٢٥٠٨)