ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2017 |
اكستان |
|
اگر سب کے سب خدا کے باغی ہو جائیں تو اُس کی شہنشاہیت میں مچھر کے پر کے برابر بھی فرق نہیں آئے گا اور سب کے سب تقویٰ شعار بن جائیں تو بھی مچھر کے پر کے برابر اُس کی خدائی میں اضافہ نہیں ہوگا اور اگر سب کی مرادیں وہ پوری کردے تو اُس کے خزانے میں مچھر کے پرکے برابر کمی نہیں آئے گی۔ خدا وند کریم نے اپنے فضل و کرم سے ماں کے پیٹ میں ہمیں دل زبان آنکھ کان ناک سب اعضاء بے مانگے دیے، ایک فلسفی کہتا ہے کہ انسان کے بدن کے اندر چار ہزار حکمتیں پوشیدہ ہیں بعد کو نہ معلوم کتنی اور حکمتوں کا انکشاف ہو، ان تمام نعمتوں میں سب سے بڑی نعمت قرآن شریف ہے جو اُمت ِ محمدیہ ۖ کو دی گئی ہے، قرآن سے پہلے جتنی کتابیں اُتاری گئیں کسی میں یہ دعوی نہیں کیا گیا کہ ایسی کتاب لے کر آؤ ،قرآن میں تمام دنیا کو چیلنج دیا گیا کہ اگر تم کو شبہ ہو تو ایسا کلام بنا کر لاؤ، فرمایا گیا (وَاِنْ کُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلٰی عَبْدِنَا فَاتُوْا بِسُوْرَةٍ مِّن مِّثْلِہ وَادْعُوْا شُھَدَآئَکُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ )کہ اعلان کردو اے محمد ۖ تمام عرب کے سامنے، اہلِ مکہ کے سامنے کہ اگرتمام جنات تمام انسان جمع ہو کر یہ کوشش کریں کہ ایسا کلام بنا کر لائیں جیسا قرآن ہے تو نہیں بنا سکیں گے، کتنا زوردار کلام ہے، مشرکین ِ عرب کے لیے آنحضرت ۖ کو شکست دینے کے لیے یہی کافی تھا کہ وہ ایسا کلام بنالاتے وہ اہلِ زبان تھے خاص کر مکہ والے بڑے فصیح و بلیغ تھے اُن کی ایک ادبی انجمن آنحضرت ۖ سے تقریبًا ڈیڑھ سو برس پہلے قائم ہو چکی تھی، ہر قوم کے شعراء اُدباء اور بُلغاء جمع ہوتے تھے اور اپنے اپنے قصیدے مجمعوں میں پیش کرتے تھے جس کا قصیدہ اچھا ہوتا تھا اُس کا قصیدہ خانہ کعبہ پر لٹکا دیا جاتا تھا اُس شاعر کا سال بھر تک چرچا ہوتا، سبعہ معلقات جو آپ کے درس میں داخل ہے اُس میں سات قصیدے اِسی قسم کے درج کیے گئے ہیں۔ آنحضرت ۖ اُن لوگوں کے سامنے قرآن پیش فرماتے ہیں پہلے کہا گیا کہ پورا قرآن اِس جیسا بناؤ اِس کے بعد فرمایا کہ اچھا دس سورتیں اِس جیسی بنا لاؤ اِس کے بعد ایک سورت کا مطالبہ کیا گیا، بڑی سورت کو نہیں فرمایا گیا سورۂ کوثر جیسی ہی کوئی چھوٹی سی سورت لے آتے، بعضوں نے بنایا بھی مگر ایسا ناقص کہ خود اُن کے آدمیوں نے اُس پر نفریں کی، مرتے گئے شکستوں پر شکستیں کھائیں مثلاً