تقریظ
حضرت مولانا مفتی محمد مکرم محی الدین صاحب زید علمہ و فضلہ
استاذفقہ دارالعلوم حیدرآباد
اسلام نے تقسیم ِ وراثت کا ایک نہایت ہی پاکیزہ و متوازن نظام دیاہے، حقداروں کے حصص خود اللہ تعالی نے مقررفرمائے ، احادیث و آثار میں ترکہ سے حصہ پانے والوں اور نہ پانے والوں کی تفصیلات موجود ہیں،فقہاء کرام اور علم الفرائض کے ماہرین نے انہی کی روشنی میں ایسے دلچسپ و حیرت انگیز اصول وضوابط مستنبط فرمائے ہیں جن کی مدد سے ایک طرف میت کے مال کا بٹوارہ بھی آسان ہوجاتا ہے اور دوسری طرف کسی وارث کی ایک پائی بھی ضائع نہیں ہوتی، قانونِ وراثت کی تشریح پر علامہ سجاوندیؒ کی کتاب ’’ سراجی ‘‘ سند و حجت کا درجہ رکھتی ہے، درس ِ نظامی میں یہ کتاب دو بار پڑھائی جاتی ہے،اس کے باوجود اس کے بعض مسائل کماحقہ طلباء کے قابو میں نہیں آتے اور اگر ان مسائل کی باقاعدہ مشق و مزاولت نہ رکھی جائے تو وہ حافظہ سے جلد زائل بھی ہوجاتے ہیں ، اِدھر عامۃ الناس میں ترکہ و وراثت کے معاملہ میں خاص حساسیت برتی جاتی ہے ، جس کی بنا پر اس تعلق سے ان کے سوالات بھی بکثرت آتے ہیں ، اس لئے اس علم سے بے استعدادی خوش آئند نہیں ۔
رفیق ِمحترم حضرت مولانا محمد غیاث الدین حسامی زید مجدہم نے اس سلسلہ میں ایک نہایت ہی عام فہم رسالہ بزبانِ اردو ترتیب دیاہے جس میں مناسخہ تک کے مسائل موجود ہیں ، مولانا موصوف نے بڑی عمدگی کے ساتھ وارثین کے حالات کو ضبط فرمایا ، قواعد میراث کو متعددمثالوں سے سمجھا یا ، اصول کو احوال پہ منطبق کیا، مولانا موصوف کو چوں کہ سالہاسال تک اس فن کو پڑھانے کا تجربہ بھی ہے ؛ اس لئے انہوں نے اپنے رسالہ کو سہل سے سہل تر کرنے کی پوری کوشش کی ،یہ رسالہ خاص طور پر طلباء مدارس اور باذوق حضرات کیلئے بڑا مفید اور اس فن سے آگاہی حاصل کرنے کا ایک اچھا ذریعہ ہے ، مولانا موصوف دوسرا ایڈیشن شائع فرمارہے ہیں ، اپنے حسن ِ ظن کی بنا پر اس بے مایہ سے انہوں نے کچھ لکھنے کو کہا جس کی تکمیل میں یہ چند سطریں لکھدی گئیں ، اللہ تعالی اس طبع ثانی کو بھی قبول ِ عام نصیب فرمائے اور مؤلف کے لئے ذخیرۂ آخرت بنائے ۔ محمد مکرم محی الدین عفی عنہ
۱۱/شوال ۱۴۳۷ھ