پیش لفظ
حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب دامت برکاتہم
ناظم المعہدالعالی
اسلام سے پہلے دنیا میں مالی نظام ارتکاز ِ دولت پر مبنی تھا ، چند افراد کے پاس زیادہ سے زیادہ دولت رہا کرتی تھی، اس ارتکاز کا ایک سبب قانون ِ میراث بھی تھا، یہودیوں کے یہاں پوری میراث صرف بڑے لڑکے کو مل جاتی تھی ، ہندوؤں کے یہاں میراث میں عورتوں کا کوئی حق نہیں تھا ، زمانۂ جاہلیت میں میراث کے حقدار وہ لوگ سمجھے جاتے تھے جو لڑکے اور دفاع کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں ، اس لئے خواتین اور نابالغ بچوں کو ترکہ میں کوئی حصہ نہیں دیا جاتا تھا۔
اسلام نے ایک ایسے نظام معیشت کی بنیاد رکھی جس میں دولت کی زیادہ سے زیادہ تقسیم ہو، اس اصول کو جہاں زندگی کے دوسرے شعبوں میں برتا گیا ، وہیں قانونِ میراث میں بھی اس کو ملحوظ رکھا گیا ، مردوں اور جوانوں کے ساتھ ساتھ عورتوں اور بچوں کو بھی میراث میں حق دیا گیا اور تقسیم میراث کا ایک ایسا متوازن اور منصفانہ نظام مقرر کیا گیا کہ جس کی کوئی مثال نہیں ملتی ؛ بلکہ آج مغرب سے مشرق تک مختلف ملکوں اور قریوں کے قانون میں اسلام کے قانون ِ میراث سے خوشہ چینی کی گئی ہے ۔
قرآن مجید میں جتنی تفصیل اور وضاحت کے ساتھ قانونِ میراث کو بیان کیاگیا ہے ، نماز و روزہ کے احکام بھی اتنی تفصیل کے ساتھ ذکر نہیں کئے گئے ہیں ، پھر اس کو فریضۃمن اللہ ‘‘ اور ’’ حدود اللہ‘‘ کہا گیاہے، اس سے شریعت میں قانونِ میراث کی اہمیت کا اندازہ کیا جاسکتاہے ، فقہاء نے اس قانون کو ’’ فرائض ‘‘ کے عنوان سے ذکر کیا ہے ؛ بلکہ اس کی