رشتہ دارہیںجو اصحاب فرائض سے بچاہوا اور اصحاب فرائص نہ ہونے کی صورت میں سار ا ترکہ لے لیتے ہیں ۔
(۳) اصحاب فرائض اور عصبۂ نسبی نہ ہو تو ترکہ عصبۂ سببی کو ملے گا، عصبۂ سببی کا آج کل وجود نہیں ہے (۱)
(۴) اگر عصبۂ نسبی اور سببی میں سے کوئی نہ ہو اور ترکہ کچھ با قی رہ گیا ہو تو باقی ماندہ ترکہ زوجین کے علاوہ اصحاب فرائض کو ان کے حصوں کے بقدر دیا جائے گا ، ا س کو اصطلاح میں رد کہتے ہیں ۔
(۵) اگر اصحاب فرائـض اور عصبات میں سے کوئی نہ ہوں تو ذوی الارحام کو دیاجائے گا، ذوی الارحام میت کے وہ رشتہ دار ہیں جن کا حصہ نہ قرآن وحدیث سے اور نہ اجماع سے مقرر ہو اور نہ وہ عصبات میں سے ہوں، جیسے پھوپھی ، خالہ ، ماموں بھانجی، اورنواسہ وغیرہ۔
(۶) ذوی الارحام بھی نہ ہوں تو ترکہ مولی الموالات کو دیا جائے گا (۲)
(۷) اگر مولی الموالات بھی نہ ہو تو ترکہ کا وارث وہ اجنبی شخص ہوگا جس کے بارے میں میت نے یہ کہاہو کہ وہ میرا نسبی رشتہ دار ہے ، اسے مقرلہ بالنسب کہتے ہیں ۔
------------------------------
(۱)عصبۂ سببی کو مولی العتاقہ بھی کہتے ہیں ، مولی کے معنی آقا کے اور عتاقہ کے معنی آزاد کرنے کے ہیں مولی العتاقہ کے معنی آزاد کرنے والا آقا ، آقا اور غلام کے درمیان ایک سببی رشتہ ہوتا ہے اسی لئے اس کوعصبۂ سببی کہتے ہیں ۔
(۲)عقد موالات :
یہ ہے کہ ایک شخص دوسرے شخص سے کہے کہ آپ میرے مولی (کفیل ) بن جائیں میں آپ کو اپنا وارث بناتا ہوں اور اگر مجھ سے کوئی موجب دیت جنایت ہوجائے تو آپ میری طرف سے دیت دیں ، دوسرا شخص اس کو قبول کرے تو یہ ’’عقد موالات ‘‘ ہے اور قبول کرنے والا مولی الموالات ہے۔ عقد مولات کے لئے درج ذیل شرائط ہیں :
(۱) موالات کرنے والا یعنی موجب آزاد ، عاقل ، بالغ ہو ۔ (۲) عربی یا کسی عربی کا آزاد کیا ہوا نہ ہو ۔
(۳) کسی دوسرے کا مولی العتاقہ نہ ہو ۔ (۴) کسی ایسے شخص سے ’’ عقد موالات ‘‘نہ کرچکا ہو ، جس نے اس کا خون بہا ادا کردیا ہو؛ اس لئے کہ تاوان ادا کرنے کے بعد معاہدہ توڑنا جائز نہیں ۔
(۵) بیت المال نے اس کا خون بہا ادا نہ کیا ہو ۔ (۶)عقد میں دیت اور وراثت کی صراحت ہو ۔
یہ ساری شرطیں موالات کرنے والے ( موجب ) کے لئے ہیں ، قبول کرنے والے کے لئے صرف عاقل ہونا کافی ہے ۔ (طرازی )