راہ سلوک میں وفا داری کی اہمیت |
ہم نوٹ : |
|
نہیں ہیں لیکن اگر کسی کو یہ معلوم ہو کہ یہ دس سال حکیم اجمل خان صاحب کے ساتھ مطب کرچکا ہے، یعنی نسخہ لکھنے کی مشق کرچکا ہے تو آپ اس کو غنیمت سمجھو گے یا نہیں؟ تو اختر خود تو کچھ نہیں ہے لیکن ایک زمانہ شاہ عبدالغنی صاحب پھولپوری، شاہ محمد احمد صاحب اور مولانا شاہ ابرارا لحق صاحب دامت برکاتہم کی صحبت میں رہا ہوں۔ لہٰذا جس کو مربی بناؤ تو یہ دیکھو کہ وہ خود کسی سے مربہ بنا ہے یا نہیں۔ بعض لوگ مربہ بننے کے شوق میں مدرسہ سے نکلے مگر منبر پر بیٹھ کر مربی بن گئے، یہ بہت بڑی گمراہی ہے۔ شاہ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اے مولویو! مدارس سے نکلتے ہی مسجد کے منبر پر مت بیٹھو کیوں کہ ابھی تم خود مربہ نہیں بنے ہو، لہٰذا جاؤ پہلے کسی اللہ والے کی صحبت میں رہو، پہلے مربہ بنو پھر مربی بنو، پہلے نفس کو مٹاؤ، پھر منبر پر بیٹھو، اللہ والوں کی صحبت اختیار کرکے جب منبر پر بیٹھو گے پھر منبر تمہارا ہوگا، سجدہ تمہارا ہوگا، اشکبار آنکھیں تمہاری ہوں گی، تڑپتا ہوا دل تمہارا ہوگا۔ انقیادِ شیخ مفتاحِ راہِ سلوک ہے ایک بہت اہم بات یاد آئی، ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ محدثِ عظیم نے شرح مشکوٰۃ میں لکھا ہے کہ ایک عالم نے اپنے شیخ سے کہا کہ میں اللہ والا بننا چاہتا ہوں، انہوں نے فرمایا کہ آپ کو ایک سال خانقاہ میں رہنا پڑے گا، اس دوران آپ خانقاہ کی حدود سے باہر نہیں نکلسکتے، اس زمانہ میں نفع متعدی میں اپنے کو مشغول نہیں کرسکتے، آپ نفع لازم میں رہیں گے۔بتاؤ! بالغ ہونا زیادہ ضروری ہے یا شادی کرنا اور اولاد پیدا کرنا، کسی نابالغ کی شادی کردو تو اولاد ہوگی؟ اگر نفع متعدی کی فکر میں کسی نابالغ کی شادی کردی جائے تو نفع متعدی ہوگا؟ پہلے اسے بالغ تو ہونے دو۔ اللہ والوں کی صحبت میں رہ کر پہلے بالغ ہوجاؤ یعنی روح بالغ ہو جائے۔ تو وہ عالم ایک سال تک خانقاہ میں رہ گئے، وہ ایسے مخلص تھے کہ ایک سال تک خانقاہ کی حدود میں ہی رہے اور نفع متعدی کا کچھ کام نہیں کیا، نہ درس دیا، نہ فتویٰ دیا، نہ وعظ کہا۔ اس لیے کہ شیخ نے کہا تھا کہ حدودِ خانقاہ میں رہو، بس اللہ اللہ کرو اور میری صحبت میں بیٹھو۔ ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا کہ اس زمانے کے بعض اہلِ فتاویٰ نے ان کے شیخ پر کفر کا فتویٰ