راہ سلوک میں وفا داری کی اہمیت |
ہم نوٹ : |
|
دے دیا کہ یہ کیسا کافر شیخ ہے، انہوں نے اس عالم سے وعظ کہلوانا بھی چھڑوا دیا، درس پڑھانے سے بھی منع کردیا غرض ہر نفع متعدی سے روک دیا۔ حالاں کہ ان اہل فتاویٰ کو معلوم ہونا چاہیے کہ نفع متعدی کے لیے پہلے نفع لازم ضروری ہے۔ لیکن وہ عالم بھی اتنے مخلص تھے کہ انہوں نے کسی کی پرواہ نہیں کی اور خانقاہ میں پورا ایک سال لگایا، اس کے بعد جب انہیں خلافت ملی اور خانقاہ سے نکلے اور پہلا وعظ کہا تو دس سال تک انہوں نے جو وعظ کہے تھے ان سے ایک آدمی بھی صاحبِ نسبت نہیں ہوا تھا اور اب ایک ہی وعظ جتنے لوگوں نے سنا سب اسی وقت ولی اللہ ہوگئے ؎ کہاں تک ضبطِ بے تابی کہاں تک پاسِ بدنامی کلیجہ تھام لو یارو کہ ہم فریاد کرتے ہیں اور ؎ کہاں تک ضبط غم ہو دوستو! راہِ محبت میں سنانے دو تم اپنی بزم میں میرا بیاں مجھ کو خواجہ صاحب کا شعر ہے ؎ مے یہ ملی نہیں ہے یوں، قلب وجگر ہوئے ہیں خوں کیوں میں کسی کو مفت دوں، مے میری مفت کی نہیں اس وقت میرا ارادہ بیان کرنے کا نہیں تھا، یہی ارادہ تھا کہ صرف اشعار سنوں گا اور بیچ بیچ میں کچھ شرح کردوں گا لیکن دیکھو! دل میں کیسا عجیب مضمون آیا۔ بس اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ مالک نے یہ مضمون عطا فرمایا۔ اس لیے ایک بزرگ نے کہا کہ دنیا میں ہر موسم کا وقت متعین ہے مگر اللہ کی رحمت کے موسم کا کوئی وقت متعین نہیں، مالک جب چاہے اپنی رحمت برسا دے۔ اس پر اپنا ایک شعر یاد آگیا ؎ وہ مالک ہے جہاں چاہے تجلی اپنی دکھلائے نہیں مخصوص ہے اس کی تجلی طورِ سیناسے