راہ سلوک میں وفا داری کی اہمیت |
ہم نوٹ : |
|
چھوڑ دی، آج نوجوان نسل کو اردو آتی ہی نہیں، اردو کو ہر مدرسہ میں لازم کرلو، کم از کم اتنی اردو تو جان لو کہ اپنے بزرگوں کی بات سمجھ سکو، لوگ کہتے ہیں کہ یہ بہت مشکل زبان ہے، زبان مشکل نہیں ہے بس محبت ہونی چاہیے۔ ایک صاحب سے میں نے کہا عربی سیکھ لو، انہوں نے کہا کہ عربی بہت مشکل زبان ہے، میں نے کہا کہ اگر کراچی میں کسی عرب شیخ کی لڑکی سے آپ کی شادی کرادیں اور وہ رات کو عشاء کے بعد آپ کے پاس آئے اور کہے یَا حَبِیْبِیْ کَیْفَ حَالُکَ تو آپ صبح ہی عربی کا قاعدہ لے کر ضَرَبَ یَضْرِبُ کرتے نظر آئیں گے۔ ایسے ہی ہمیں اردو زبان سے بھی محبت ہونی چاہیے جس میں ہمارے اکابر کا ذخیرہ موجود ہے۔ بتاؤ! بزرگوں کی باتوں میں نور محسوس ہور ہا ہے یا نہیں؟ حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ قانون کے کتنے پابند تھے، ہر وقت کے اصول طےتھے مگر حضرت فرماتے ہیں کہ جب میں اپنے شیخ حاجی امداد اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے، میاں جی رحمۃ اللہ علیہ کے یا اولیاء اللہ کے حالات پیش کرتا ہوں تو سب قانون ختم کردیتا ہوں، جب میں اللہ تعالیٰ کے پیاروں کی بات کرتا ہوں، خدا کے عاشقوں کی بات کرتا ہوں تو میرے سب اصول ختم ہو جاتے ہیں، جب اللہ والوں کی بات پیش کرتا ہوں پھر مجھے وقت کا کچھ خیال نہیں رہتا۔ گناہوں سے بچنے کا غم ایمان کو تازہ کرتا ہے شاہ عبدالغنی صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ جو سالک، جو مرید، جو مولوی، جو حافظ گناہوں سے نہیں بچے گا اس کا ایمان خوشبو دار نہیں ہوگا ، اپنے ایمان سے نہ وہ خود مست ہوگا نہ دوسروں کومست کرسکے گا۔ جو گناہوں سے بچنے میں زیادہ تکلیف اور غم اٹھاتا ہے وہ تقویٰ کا آتشِ غم بن جاتا ہے، اس آتشِ غم سے اُس کے ایمان کا کباب خوشبودار ہو جاتا ہے، جیسے کباب کی کچی ٹکیہ میں کباب کے سارے اجزاء موجود ہیں لیکن اس کو جو کھائے گا قے کرے گا کہ یہ کیسا کباب ہے۔ کیوں کہ وہ کباب آگ پر تلنے کے مجاہدہ سے نہیں گزرا۔ اسی طرح وہ شخص جو بِجَمِیْعِ اَجْزَاءِہٖ عالم بھی ہے اور مرید بھی ہے لیکن گناہ چھوڑنے کے غم کی آگ میں اپنے ایمان کا کباب نہیں تلتا، کڑھائی میں سرسوں کا تیل ڈال کر اس کے نیچے آگ