راہ سلوک میں وفا داری کی اہمیت |
ہم نوٹ : |
سے کیفیتِ احسانی منتقل ہوتی ہے، آپ اپنے شیخ کے پاس اضافہ علم کے لیے نہ رہو،اضافۂ کیفیاتِ احسانیہ کے لیے رہو، جب کیفیتِ احسانیہ سے، دردِ دل سے سجدہ کرو گے تو آپ کی دو رکعات ایک لاکھ رکعات کے برابر ہو جائیں گی۔ صحابہ کے اعمال اور ہمارے اعمال میں مقدار میں تو کوئی فرق نہیں ہے، کمیت تو وہی ہے یعنی تین رکعات مغرب کی نماز وہ بھی پڑھتے تھے اور ہم بھی پڑھتے ہیں، ہم تین کی جگہ چار رکعات نہیں پڑھ سکتے، شریعت کے احکامات کی کمیات تو وہی ہیں جو صحابہ کے زمانہ میں تھیں، اعمالِ شریعت تو آج بھی وہی ہیں لیکن جن کیفیاتِ احسانیہ سے صحابہ نماز ادا کرتے تھے آج وہ کیفیات نہیں ہیں۔ اگر آج صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہاں آجائیں اور ہم لوگ ایک لاکھ مرتبہ اللہ اللہ کریں اور وہ ایک دفعہ اللہ کہہ دیں تو ان کا اللہ کہنا ہمارے ذکر سے زیادہ قوی ہوگا یا نہیں؟ کیوں کہ وہ کیفیت و درد ہمارے پاس نہیں ہے۔ قلوبِ اولیاء سے منتقلیِ نسبت کی تمثیل لہٰذا شیخ کے پاس علوم میں اضافے کے لیے مت جاؤ، کیفیتِ احسانیہ کے لیے جاؤ کیوں کہ ان کا ایمان و یقین اور اخلاص ہمارے قلب میں منتقل ہوتا ہے، اور کیسے منتقل ہوتا ہے؟ جیسے دو تالاب دور دور ہیں تو ایک تالاب کی مچھلیاں زمین پر چل کر دوسرے تالاب میں نہیں جاسکتیں لیکن اگر بارش ہو اور اتنا پانی جمع ہوجائے کہ دونوں تالاب کی سرحدیں مل جائیںتو سب مچھلیاں دوسرے تالاب میں آجائیں گی۔ اللہ والوں کے قلب میں جو ایمان و یقین اور اخلاص ہوتا ہے اسے حاصل کرنے کے لیے اپنے دل کو ان کے دل سے ملا لو تاکہ ان کے قلب کی یہ صفات تمہارے دل میں منتقل ہوجائیں ؎ قریب جلتے ہوئے دل کے اپنا دل کردے یہ آگ لگتی نہیں ہے لگائی جاتی ہے مصلح بننے سے پہلے صالح ہونا ضروری ہےاللہ والوں کے غلاموں کی صحبت کو بھی غنیمت سمجھو۔ آج حکیم اجمل خان زندہ