راہ سلوک میں وفا داری کی اہمیت |
ہم نوٹ : |
|
کہلادیتا ہے کہ میرے لڑکوں کو سمجھا دو کہ کسی کی بہو بیٹی کو نہ دیکھا کریں، تو جس طرح باپ اپنے بیٹوں سے خود کہتے ہوئے شرماتا ہےاسی طرح یہ بھی حق تعالیٰ کی کمالِ رحمت ہے، اللہ نے اپنے غلاموں کی آبرو رکھی ہے کہ میرے بندے کہیں شرما نہ جائیں کہ اللہ میاں ہماری سب نالائقیاں جانتے ہیں۔ اسی لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا کہ آپ اپنے امتّیوں سے اور میرے غلاموں سے فرمادیں کہ اپنی نظر وں کی حفاظت کریں۔ حفاظتِ نظر خواتین پر بھی فرض ہے عورتیں سمجھتی ہیں کہ یہ حکم صرف مردوں کے لیے ہے، لہٰذا وہ باقاعد ہ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہتی ہیں کہ مولانا! یہ راستہ کدھر جارہا ہے؟ ذرا بھی نظریں نیچی نہیں کرتیں۔ حالاں کہ قرآن پاک میں یَغْضُضْنَ بھی ہے، یَغْضُضْنَ دلیل ہے یَحْجِبْنَ کے لیے کہ تم بھی پردہ کرو، اِدھر اُدھر مت دیکھو۔ سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دو بیویوں کو ایک نابینا صحابی حضرت عبداللہ ابن ام مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پردہ کرایا تو ہماری دونوں ماؤں نے عرض کیا کہ کیا یہ نابینا نہیں ہیں؟ آپ نابینا سے کیوں پردہ کرا رہے ہیں؟ تو سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ نابینا ہیں مگر تم تو نابینا نہیں ہو۔ نظر کی حفاظت میں شرم گاہ کی حفاظت مضمر ہے اس آیت میں آگے ہے وَ یَحۡفَظۡنَ فُرُوۡجَہُنَّ 3؎ یعنی اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرو۔حفاظتِ نظر اور شرم گاہوں کی حفاظت کرنے کے دو احکامات ایک ساتھ نازل کرنے میں ایک راز ہے۔ قرآنِ پاک کے اسلوبِ نزول میں علوم و معارف ہوتے ہیں، تو یہاں جو نازل ہوا ہے کہ نظر کو بچاؤ اور شرمگاہ کو بچاؤ تو اس سے معلوم ہوا کہ نظر اور شرمگاہ میں خاص کنکشن، خاص تعلق ہے یعنی جو نظر بچاتا ہے اس کی شرمگاہ بھی محفوظ رہتی ہے اور جو نظر بازی کرتا ہے اس کی شرم و حیاء کے پردے ایک دن پھٹ جاتے ہیں اور وہ گناہِ کبیرہ میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ _____________________________________________ 3؎النور:31