راہ سلوک میں وفا داری کی اہمیت |
ہم نوٹ : |
|
پشتوں تک اور دوسری روایت کے مطابق دس پشتوں تک رحمت نازل کرتا ہے۔ اور اﷲ کی رحمت محدود نہیں ہے، یہ ساتویں کا جو لفظ ہے، وہ امرِ واقعی ہے یعنی اس میں تحدید نہیں ہے، یہ محدود نہیں ہے، اللہ کی رحمت لامحدود ہے، وہ اپنے نیک بندوں کی لامحدود نسلوں کی حفاظت اور کفالت کرسکتا ہے۔ لہٰذا آج سے ہم سب ارادہ کرلیں کہ ہر گناہ سے بچیں گے، صالحین ہوجائیں گےپھر اولاد کے رزق کی زیادہ فکرنہ کرو، اولاد کو نیک بنانے کی فکر کرو، انہیں حافظ بناؤ، عالم بناؤ۔ حفاظ اور علماء کرام پر بھی حصولِ تقویٰ فرض ہے میں تو حافظ و عالم بنانے سے زیادہ ضروری سمجھتا ہوں کہ اللہ والا بناؤ۔یہ بتاؤ! عالم ہونا اور حافظ ہونا فرض کفایہ ہے یا نہیں؟ اور اللہ والا ہونا اللہ سے ڈر کر رہنا، تقویٰ سے رہنا، گناہوں سے بچ کر رہنا یہ فرضِ عین ہے۔ لیکن اس زمانہ میں فرضِ عین کی فکر نہیں، آج کل تو مدارس کے طلبہ کا یہ حال ہے کہ پاجامہ ٹخنے سے نیچے لٹک رہا ہے، سر پر انگریزی بال رکھ رہے ہیں، داڑھی کاٹ رہے ہیں۔ یہ مہتمم اور اساتذہ کی ذمہ داری ہے کہ طلبہ کی نگرانی رکھیں۔ حضرت عمر کے انتقال کا وقت ہے کہ اچانک ایک غلام پر نظر پڑی تو دیکھا کہ اس کا لباس ٹخنوں سے نیچے ہے تو فوراً فرمایا اِرْفَعْ اِزَارَکْ 13؎اپنا پاجامہ اوپر اٹھاؤ۔اہلِ مدارس کے ذمہ ہے کہ وہ اپنے طلبہ کو تقویٰ سکھائیں، اللہ والا بنائیں، تقویٰ سیکھنا فرضِ عین ہے، ورنہ پھر یہی ہوگا کہ پیٹو مولوی بنے گا، دل سے مولوی نہیں ہوگا، پیٹ کا مولوی ہو جائے گا، دل میں مولیٰ نہیں ہوگا۔ اس لیے ضرورت ہے کہ ہر طالبِ علم کو اہل اللہ سے، اپنے مزکی اور مربی اور شیخ سے رابطہ کرانا مہتمم کے ذمہ ہے کہ وہ اپنے طلباء سے کہے کہ کسی اﷲ والے سے تعلق قائم کرو۔ حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس زمانہ میں صحبت اہل اﷲ فرضِ عین ہے، جنہوں نے بزرگوں سے تعلق نہیں رکھا ان میں پورا دین نہیں آیا، ضَرَبَ یَضْرِبُ صرف اوپر سے رہا، دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت و عظمت نہیں آئی، گناہ سے بچنے کی توفیق نہیں ہوئی۔ مہتمم مدرسہ اور اساتذہ کے ساتھ ساتھ ہر طالبِ علم ساتھی کو بھی اپنے ساتھی کی فکر ہونی چاہیے۔ _____________________________________________ 13؎کنز العمال :480/15(41896)،باب الحریر ،مؤسسۃ الرسالۃ