راہ سلوک میں وفا داری کی اہمیت |
ہم نوٹ : |
|
میرے شیخ شاہ عبد الغنی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ ایک بزرگ جارہے تھے تو دیکھا کوئی زِنا کر رہاہے۔ اگر کوئی نالائق آدمی ہوتا تو تماشا دیکھتا یا کہتا کہ میرا حصہ بھی لگاؤ ورنہ میں ابھی شور مچاتا ہوں، ابھی تمہارا راز آؤٹ کرتا ہو، لہٰذا آپ مجھے آؤٹ نہیں کرسکتے کیوں کہ میں نے تم کو حالتِ جرم میں دیکھ لیا لیکن وہ بزرگ واپس آئے اور چادر اوڑھ کر لیٹ گئے اور روتے رہے کہ آہ! اے اللہ! تیری نافرمانی ہو رہی ہے۔ میرے شیخ شاہ عبدالغنی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ ان کو اتنا غم ہوا کہ تھوڑی دیر کے بعد جب پیشاب کیا تو پیشاب میں خون آ گیا۔ یہ ہیں اللہ والے! ان کے مقابلے میں سوچو کہ ہم لوگ کیا ہیں۔ شرافت بھی تو کوئی چیز ہے، حیاء بھی تو ہے، جس کی کھاتے ہیں اسی کی گانا چاہیے۔ خدا پر فدا ہونے والا فنا نہیں ہوتا واللہ! دردِ دل سے کہتا ہوں کہ نظر بچانے میں جو غم ہے اگر سارے عالم کی خوشیاں اﷲ کے راستے کے غم کو گارڈ آف آنر دیں، سیلوٹ کریں، سلامی پیش کریں، احترامِ سلامی دیں تو اس غم میں اتنی خوشی ہے کہ اللہ کے راستے کے ایک ذرّہ غم کا مقابلہ سارے عالم کی خوشیاں نہیں کرسکتیں، کیوں کہ اللہ تعالیٰ خالقِ خوشی ہیں ، وہ دیکھتے ہیں کہ میرا بندہ میری وجہ سے غم اٹھا رہا ہے لہٰذا اللہ تعالیٰ اس کے دل کو اپنے خزانہ سے خوشیاں دیتے ہیں۔ جو اﷲ کی خوشی کے لیے اپنی حرام خوشی کو اللہ پر فدا کرتے ہیں تو اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں مَا عِنۡدَکُمۡ یَنۡفَدُ وَ مَا عِنۡدَ اللہِ بَاقٍ 33؎ یعنی جو کچھ تمہارے پاس ہے وہ ختم ہونے والا ہے اور جو اﷲ کے پاس ہے وہ ہمیشہ باقی رہنے والا ہے لہٰذا جس نے اپنی حرام خوشی اﷲ پر فدا کی اس کی خوشی ہمیشہ کے لیے باقی رہ جائے گی کیوں کہ اب وہ خوشی اس کی نہیں رہی، مَا عِنۡدَکُمۡ نہیں رہی، اب وہ خوشی اﷲ کے پاس جمع ہوگئی، مَا عِنۡدَ اللہِ بَاقٍ ہوگئی، اب چاہے ساری دنیا غم میں مبتلا ہوجائے لیکن اللہ اس کو خوش رکھے گا اور جس نے اپنی جوانی اللہ پر فدا کردی اس کی جوانی بھی ہمیشہ قائم و دائم رہے گی کیوں کہ اس نے اپنی جوانی کو نالائق کاموں میں نہیں لگایا بلکہ اپنی جوانی کو _____________________________________________ 33؎النحل:96