راہ سلوک میں وفا داری کی اہمیت |
ہم نوٹ : |
|
انتقال کے بعد میں نے دوسرا شیخ کیا، تو بہت زبردست مجاہدہ ہوا مگر میں نے دل پر پتھر رکھ کر اور طبیعت کے خلاف یہ تعلق قائم کیا اور آج اس کا فائدہ اٹھارہا ہوں کہ مجھے پیر بھائی بھی مل رہے ہیں اور روحانی اولاد بھی مل رہی ہے۔ میں نے الٰہ آباد میں کُوۡنُوۡا مَعَ الصّٰدِقِیۡنَ 16؎ پر تقریر کی تو مولانا قمر الزمان صاحب نے کہا میں تو اس تقریر سے مبہوت ہوگیا کیوں کہ میں نے اس تقریر میں کہا تھا کہ کُوۡنُوۡا امر ہے اور امر بنتا ہے مضارع سے اور مضارع میں تجدد استمراری ہوتی ہے یعنی صادقین اور اہل اللہ کے ساتھ بار بار تعلق کا تجدد کرتے رہو، گویا ان سے تعلق رکھنا کسی زمانہ میں ختم نہیں کرو، اس تعلق میں استمرار ہونا چاہیے، اپنے سروں پر اہل اللہ کا سایہ بالا ستمرار قائم رکھو۔ میرے مرشد ثانی حضرت مولانا شاہ ابرارالحق صاحب کا اخلاص تھا کہ انہوں نے حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے بعد مولانا عبدالرحمٰن صاحب کیمل پوری کو اپنا شیخ بنایا، ان کے بعد خواجہ عزیز الحسن صاحب مجذوب رحمۃ اللہ علیہ سے تعلق کیا پھر میرے شیخ شاہ عبدالغنی رحمۃ اللہ علیہ سے تعلق قائم کیا، پھر مولانا شاہ محمد احمد صاحب رحمۃ اﷲ علیہ سے تعلق کیا، پھر مفتی محمود حسن گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ سےتعلق کیا حالاں کہ اس وقت میرے شیخ کی ستر اسی سال کی عمر تھی مگر انہوں نے اہل اﷲ سے مسلسل تعلق رکھا، اللہ والوں کا دائمی سایہ نعمت ہے۔ اگر کوئی طالبِ علم کسی اﷲ والے سے مرید ہو تو اس کے قریبی ساتھیوں کو چاہیے کہ اس سے سبق لیں۔ تو حضرت مولانا یحییٰ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے سوچا کہ مولانا ماجد علی جونپوری میرا ہم سبق، میرا بخاری شریف کا ساتھی ہے، یہ بغیر مرید ہوئے ایسے ہی آزاد رہ جائے گا، اتنے بڑے شیخ قطب العالم کی برکات و فیوض سے محروم رہ جائے گا تو کتنے نقصان کی بات ہوگی۔ لہٰذا ایک دن انہوں نے ایک ترکیب پر عمل کیا۔ مولانا رشید احمد گنگوہی کا ایک دلچسپ واقعہ یہ واقعہ میرے شیخ شاہ عبدالغنی رحمۃ اللہ علیہ نے سنایا کہ ایک دن مولانا گنگوہی _____________________________________________ 16؎التوبۃ:119