راہ سلوک میں وفا داری کی اہمیت |
ہم نوٹ : |
|
نہیں لگاتا اور کباب نہیں تلتا، جب کباب تلا نہیں جائے گا تو خوشبو کیسے آئے گی؟ میرے شیخ شاہ عبد الغنی صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ ایک ہندو کباب کی دوکان کے سامنے سے گزرا جہاں گائے کا کباب تلا جارہا تھا، اس کی خوشبو سے ایسا مست ہوا کہ اس نے کہا کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ میں مسلمان ہو جاؤں گا، کباب کی ظالم خوشبو مجھ کو مسلمان کردے گی۔ اور حضرت نے فرمایا کہ جب ہم اور مولانا اصغر میاں صاحب دیوبندی رحمۃ اللہ علیہ جونپور کے ایک مدرسہ میں پڑھا رہے تھے تو وہاں میرے شیخ شاہ عبد الغنی صاحب سولہ کتابیں پڑھاتے تھے اور رات کو دو بجے تک مطالعہ کرتے تھے۔ میرے شیخ اتنے قابل تھے ۔ اختر آج آزاد وِل دارالعلوم میں قسم کھا کر کہتا ہے کہ واللہ! جس ظالم نے اپنے کو گناہ سے نہ بچایا اور گناہ چھوڑنے کا غم نہ اٹھایا وہ ساری زندگی حق تعالیٰ کے قربِِ خاص سے محروم رہا اور جب مرے گا تو جن حسینوں سے دل بہلا رہا ہے، ان کی نمازِ جنازہ پڑھنے سے بھی محروم ہو جائے گا، یہ جتنے بھی حسین ہیں کیا ان کو اپنے ساتھ قبر میں لے جائے گا؟ قبر میں کوئی حسین اور حسینہ نظر آئے گی؟ تو یہ شخص کتنا بڑا احمق اور انٹر نیشنل گدھا ہے کہ اپنی زندگی کو ضایع کررہا ہے۔ حق تعالیٰ کے قربِ خاص سے مشرف ہونا معمولی نعمت نہیں ہے۔ جتنے گناہ ہیں یہ سب منکر ہیں یعنی اجنبی ہیں اور نیکیاں معروف ہیں یعنی ہم ان سے مانوس ہیں، لہٰذا ذِکر و فکر کریں اور اگر گناہ چھوڑنے کاغم اٹھالیں تو کیا پائیں گے؟ گناہ چھوڑنے کے غم سے آپ متقی ہوجائیں گے۔ اور متقی ہونے کا انعام بھی کتنا بڑا ہے کہ اس سے قلب میں حلاوتِ ایمانی ملے گی اور آپ کا ایمان اتنا خوشبو دار ہو جائے گا کہ جدھر سے گزرو گے لوگ کہیں گے کہ کوئی اللہ والا جارہا ہے، آپ کو بتانے کی ضرورت نہیں پڑے گی، کباب کی دوکان پر جب کباب تلا جاتا ہے تو وہاں بورڈ لگانے کی ضرورت نہیں ہوتی کیوں کہ جب کباب تلا جائے گا تو اس کی خوشبو خود اعلان کرتی ہے، وہ خوشبو خود بورڈ ہے، کباب کا اشتہار ہے۔ اب حضرت کا ایک جملہ سن لو، مولانا فضلِ رحمٰن گنج مرادآبادی رحمۃا للہ علیہ کی روایت سے کہتا ہوں، ہم لوگ اعظم گڑھ کے ہیں تو وہاں کی پوربی زبان کا جملہ ہے کہ اَس کے جرے تو کس نے بسائے، یعنی جو اپنے دل کو اللہ کے خوف سے اور گناہوں کو چھوڑنے کے غم سے جلائے گا تو کیا خوشبوپیدا نہ ہوگی؟