راہ سلوک میں وفا داری کی اہمیت |
ہم نوٹ : |
|
بخاری شریف کا سبق پڑھا رہے تھے، حضرت پڑھائی کے درمیان تھوڑا سا وقفہ کرتے تھے اور اس میں ایک قصّہ سناتے تھے، اس قصہ کے علاوہ حضرت کو کوئی اور قصہ آتا ہی نہیں تھا، تو حضرت قصہ سناکر طلباء کو ہنسا دیتے تھے مگر خود نہیں ہنستے تھے، طلبہ ہنستے تھے مگر وہ نہیں ہنستے تھے۔ وہ کیا قصّہ ہے یہ بھی سن لیجیے۔ میرے شیخ شاہ عبدالغنی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ مولانا گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ ہمیشہ ایک ہی قصّہ سناتے تھے، یہ قصّے کہانی والے لوگ کہاں تھے، انہیں اس ایک قصّہ کے علاوہ کوئی اور قصّہ یاد ہی نہیں تھا، مگر وہ قصّہ بھی عجیب ہے،پوربی زبان کے لوگ اس کو خوب سمجھیں گے۔ تو فرمایا کہ دہلی میں دو بڈھا بڈھی رہتے تھے، ان کا کوئی خاندان نہیں تھا، نہ اولاد تھی نہ کوئی اوررشتہ دار مگر ان میں آپس میں بہت محبت تھی، مولانا گنگوہی فرماتے تھے کہ اتنی محبت تھی کہ بڈھا بڈھی ایک ہی رضائی میں سوتے تھے، بڈھا اُس بڈھی کا اتنا فرماں بردار تھا کہ جب اس کو پیشاب لگتا تھا تو بڈھی سے پوچھتا تھا کہ اے شیخائن!میں موتی ہوں یعنی مجھے پیشاب لگا ہے۔ دیکھیے! حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ جیسا عالم یہ قصّہ بیان کررہا ہے، دین پھیلانے کے لیے دل خوش کرنا بھی عبادت ہے، مجمع کو ہنسا دینے سے دماغ تازہ ہو جاتا ہے ورنہ آدمی تھک کر سو جائے گا یا بار بار گھڑی دیکھے گا، گھڑی گھڑی، گھڑی دیکھے گا کہ مولانا وعظ کب ختم کریں گے۔ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے ایسی توفیق دیں کہ لوگ یہ نہ سوچیں اور نہ گھڑی دیکھیں بلکہ یہ کہیں کہ کچھ دیر اور بیان کریں۔ تو حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ جیسے قطب العالم یہ قصّہ بیان فرما رہے ہیں کہ وہ بڈھا اپنی بڑھیا سے اتنا زیادہ پیار کرتا تھا، اتنی محبت کرتا تھا کہ اس کی ہر بات مانتا تھا یہاں تک کہ اس کی اجازت کے بغیر پیشاب بھی نہیں کرتا تھا، مگر پرمیشن یعنی اجازت حاصل کرنے کا مضمون تو دیکھو کہ کہتا تھا اے شیخائن! شیخ کی بیوی کو شیخائن کہتے ہیں، اے شیخائن! میں موتوں گایعنی مجھے پیشاب کرنا ہے۔ تو وہ بڑھیا کہتی تھی ہاں موت لویعنی پرمیشن دے رہی ہے کہ مجھے کوئی اعتراض نہیں،تب شیخ جی پیشاب کرنے جاتے تھے۔ بس اتنا کہہ کر حضرت گنگوہی خاموش ہوجاتے تھے۔ اپنے بزرگوں کی صحبت کے یہ علوم ہیں، یہ باتیں کتابوں میں نہیں پاؤ گے،