فغان رومی |
ہم نوٹ : |
|
درسِ مناجاتِ رُومی ۲۸؍ رجب المرجب ۱۴۱۱ ھ مطابق ۱۵؍ فروری ۱۹۹۱ ء بروز جمعۃ المبارک ،بعد نمازِ عشاء، بمقام خانقاہ امدادیہ اشرفیہ، گلشن اقبال ۲،کراچی یارب ایں بخشش نہ حدِ کارِ ماست لطفِ تو لطف خفی را خود سزا ست ارشاد فرمایا کہ مولانا رُومی بارگاہِ حق میں عرض کرتے ہیں کہ اے ہمارے رب! آپ کی بخششیں اور عنایات والطاف ہمارے اعمال وعبادات کا ثمرہ ومعاوضہ وجزا نہیں ہوسکتے، یعنی ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہماری نماز، روزہ،حج وعمرہ اور نوافل وتلاوت سبب ہیں آپ کے انعامات کا، کیوں کہ ہمارے ہر عمل میں فِیْہِ نَظَرٌ ہے اور ریا وعدمِ اخلاص وشہرت وجاہ وغیرہ نفس کی آمیزشوں کا احتمال ہے ۔ ہمارا کوئی عمل آپ کی عظمت کے لائق نہیں ہے، کیوں کہ آپ کی عظمت غیر محدود ہے اور ہمارے اعمال محدود اور ناقص ہیں اور محدود و ناقص غیر محدود کا حق ادا کر ہی نہیں سکتا۔ پس حقوق عظمتِ غیر محدود کا ادا کرنا محال ہے، کیوں کہ اس سے غیر محدو د کا محدود ہونا لازم آتا ہے کہ محدود ہی محدود کا احاطہ کرسکتا ہے ۔ پس جب عظمتِ الہٰیہ غیر محدود ہے اور ہم محدود ہیں، ہمارے اعمال محدود ہیں، لہٰذا ادائے حقِ عظمتِ الہٰیہ کے لیے ہمارے اعمال کا ناکافی اور ناقابل ہونا عقلاً ثابت ہوگیا،لہٰذا مولانا رومی کی نظر کہاں تک پہنچ گئی کہ فرمایا:اے ہمارے رب!آپ کی یہ بخششیں اور مہربانیاں ہمارے اعمال کا نتیجہ وثمرہ وپھل نہیں ہیں، یعنی آپ کی عنایات اور نزولِ رحمت کا سبب ہماری عبادات نہیں ہیں، پھر کیا سبب ہے ؟ فرماتے ہیں ؎ لطف تو لطف خفی را خود سزا ست آپ کی عنایاتِ ظاہرہ آپ کی عنایاتِ مخفیہ کے مظاہر ہیں، یعنی آپ کے جو الطاف وکرم ہمارےاُوپر ظاہر ہیں بصورت توفیقاتِ اعمالِ صالحہ، التزامِ طاعات واجتناب عن المعاصی